ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

زنا سے پيدا شدہ بچے كا حال اور اس سے شادى كرنے كا حكم

21818

تاریخ اشاعت : 14-05-2010

مشاہدات : 16101

سوال

كيا يہ صحيح ہے كہ ہمارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زنا سے پيدا شدہ بچے سے شادى كرنے كى سختى سے ممانعت كى ہے، باوجود اس كے كہ وہ شخص بہت متقى اور پرہيزگار بھى ہو سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ اولاد كے متعلق احاديث ميں مذمت آئى ہے ليكن ان ميں اكثر احاديث ضعيف ہيں جو صحيح ثابت نہيں.

سنن ابو داود اور مسند احمد ميں حديث مروى ہے كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" زنا سے پيدا شدہ بچہ تينوں ميں سے سب سے زيادہ برا ہے "

يعنى وہ اپنے والدين جنہوں نے زنا كيا تھا سے بھى برا اور شرير ہے.

سنن ابو داود ( 4 / 39 ) مسند احمد ( 2 / 311 ).

اس حديث كو ابن قيم رحمہ اللہ نے المنار المنيف ( 133 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 672 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

اس حديث كى علماء كرام نے كئى ايك توجيھات كى ہيں جن ميں سے مشہوريہ ہے:

سفيان ثورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر وہ اپنے والدين جيسا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا اور شرير ہو گا.

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى يہ روايت كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب وہ اپنے والدين جيسا عمل كرے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے "

يعنى اگر زنا سے پيدا شدہ بچہ والدين والا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے، اگرچہ اس كى سند ضعيف ہے ليكن بعض سلف نے اسے اس معنى پر ہى محمول كيا ہے جيسا اوپر بيان ہوا ہے.

اس شرح كى تائيد اس روايت سے ہوتى ہے جو امام حاكم نے اپنى سند كے ساتھ روايت كى ہے اور علامہ البانى اس كے متعلق كہتے ہيں كہ اس كى تحسين ممكن ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" زنا سے پيدا شدہ بچے پر اس كے والدين كے گناہ ميں سے كوئى گناہ نہيں، اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى "

مستدرك الحاكم ( 4 / 100 ) السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2186 ).

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ حديث اس پر محمول ہے كہ زنا سے پيدا شدہ اولاد غالب طور پر شرير اور برى ہى ہوتى ہے كيونكہ وہ ايك خبيث اور حرام نطفہ سے پيدا ہوئے ہيں، اور غالب طور پر خبيث اور حرام نطفہ سے كبھى پاكيزہ اور اچھا پيدا نہيں ہوتا، لہذا اگر اس نطفہ سے كوئى اچھا شخص پيدا ہو گيا تو وہ جنت ميں جائيگا، اور حديث عام مخصوص ميں شامل ہو گى.

ديكھيں: المنار المنيف ( 133 ).

اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ ايمان لے آئے اور نيك و صالح اعمال كرے تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، وگرنہ اسے اسى طرح كا بدلہ ديا جائيگا جو اس نے عمل كيے ہونگے جس طرح دوسروں كے ساتھ ہوتا ہے، اور پھر بدلہ تو اعمال كے ساتھ ہوتا ہے نہ كہ حسب و نسب كے مطابق، زنا سے پيدا شدہ بچے كى مذمت تو اس ليے ہوتى ہے كہ عام طور يہى خيال ہوتا ہے كہ وہ بھى غلط اور خبيث و گندے عمل كريگا جيسا كہ اكثر ہوتا ہے، جس طرح اچھے نسب كى تعريف ہوتى ہے كيونكہ ان كے متعلق خير و بھلائى كا خيال ہوتا ہے.

اور جب عمل ظاہر ہو جائيں تو اس كے مطابق ہى بدلہ ملے گا، اور پھر اللہ كے ہاں تو سب سے عزت والى مخلوق سب سے زيادہ متقى و پرہيزگار ہے "

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 83 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى ميں درج ہے:

" جب زنا سے پيدا شدہ بچہ دين اسلام پر فوت ہو تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، اور ابن زنا ہونا اس پر كوئى اثرانداز نہيں ہو گا، كيونكہ يہ اس كا عمل نہيں بلكہ كسى دوسرے كا عمل ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى .

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

ہر شخص اپنے اعمال كا گروى ہے .

اور اس طرح كى دوسرى آيات بھى ہيں، ليكن جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كيا جاتا ہے كہ:

" زنا كى اولاد جنت ميں داخل نہيں ہو گى "

يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں، اور حافظ ابن الجوزى رحمہ اللہ نے اسے الموضوعات ميں ذكر كيا ہے اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ روايات ميں شامل ہوتى ہے .

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " اھـ

اور زنا سے پيدا شدہ بچے كے ساتھ شادى كرنے كے متعلق يہ ہے كہ فقھاء ميں كسى بھى معتبر فقيہ نے اس كى حرمت بيان نہيں كى، بلكہ حنابلہ كے ہاں اس كے كفو ہونے ميں كچھ اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا نسب كے اعتبار سے يہ لڑكى كا كفو بنتا ہے يا نہيں كچھ تو اسے كفو نہيں سمجھتے كيونكہ عورت كو اس كى عار دلائى جائيگى اور اس كے خاندان والوں كو بھى عار اٹھانا پڑيگى اور پھر يہى چيز آگے بڑھ كر اس كى اولاد كو بھى طعنہ كا باعث بنے گى "

ديكھيں: المغنى ( 7 / 28 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 282 ).

فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے اپنى بيٹى كا شادى ايسے شخص سے كر دى جس كے متعلق پتہ چلا كہ وہ زنا سے پيدا شدہ تھا اس كا حكم كيا ہے ؟

تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر وہ مسلمان ہے تو اس كا نكاح صحيح ہے، كيونكہ اس كى ماں كا گناہ اس بچے پر نہيں، اور اسى طرح جس نے اس كى ماں سے زنا كيا تھا اس كا گناہ ميں اس بچے پر نہيں ہے اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى .

اور اس ليے بھى كہ ان دونوں كے اس عمل كى عار بچے پر نہيں جبكہ بچہ دين پر صحيح عمل كرے اور اللہ كے دينى احكام كى پيروى كرتا ہو اور اسلامى اخلاق ركھتا ہو اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو ہم نے تم سب كو ايك ہى مرد و عورت سے پيدا كيا ہے اور اس ليے كہ تم آپس ميں ايك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديے ہيں، اللہ كے نزديك تم سب ميں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زيادہ ڈرنے والا ہے يقين مانو كہ اللہ دانا اور باخبر ہے الحجرات ( 13 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جب سب سے بہتر اور كريم ترين شخص كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:

" ان ميں سب سے بہتر وہى ہے جو سب سے زيادہ متقى و پرہيزگار ہے "

اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كا عمل اسے سست اور پيچھے ركھے تو اسے اس كا نسب آگے اور تيز نہيں چلاتا " اھـ

ديكھيں: الفتاوى الاسلاميۃ ( 3 / 166 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد