منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

رائے مختلف ہونے کی وجہ سے مسلمان کے ساتھ قطع تعلقی جائز نہیں ہے۔

سوال

میں جانتا ہوں کہ مسلمان اپنے بھائی سے 3 دن سے زیادہ ناراض نہیں رہ سکتا، اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ لیکن اگر میرا بھائی مجھے ہفتے عشرے میں ایک آدھ بار ہی نظر آئے تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس سے 3 بار رو گردانی کروں؟ یا حد 3 دن ہی ہو گی؟ اگر 3 دن کی حد کا خیال رکھوں تو پھر میرے بھائی کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ میں اس سے ناراض ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ طریقہ کار اچھے طریقوں میں سے نہیں ہے، لیکن بسا اوقات ایسا معاملہ ہو جاتا ہے کہ میں اس کے نظریے سے موافقت نہیں رکھتا، میں اسے بتلانا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے فیصلے پر خوش نہیں ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

"مسلمان سے قطع تعلقی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے : (کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ 3 دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے۔ وہ دونوں ملنے پر ایک اِس طرح منہ پھیر لے اور دوسرا اُس طرف منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (5727) اور مسلم : (2560) نے روایت کیا ہے۔
اور اگر مومن شخص آپ کا بھائی، بھتیجا یا چچا ، یا چچا زاد وغیرہ ہے تو پھر اس سے قطع تعلقی تو مزید شدید گناہ ہے۔

ہاں اگر وہ کسی گناہ میں ملوث ہو اور اس سے قطع تعلقی میں مصلحت بھی ہو کہ آپ کے قطع تعلقی کرنے سے وہ گناہ سے باز آ جائے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ پھر یہ قطع تعلقی برائی کے خاتمے میں شامل ہو گی، اور برائی کے خاتمے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو پہلے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔)مسلم: (49) مسلمان سے قطع تعلقی کے متعلق بنیادی حکم حرمت کا ہے، تا آں کہ اس کے جواز کی کوئی ضرورت پڑے تو ممکن ہے۔" ختم شد
دیکھیں: " فتاوى منار الإسلام " از شیخ ابن عثیمین : جلد: 3 ، صفحہ: 732

ولی الدین عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں قطع تعلقی کی حرمت کا تعلق ایسے ناراضگی اور غصے سے ہے جس کا دین سے کوئی علاقہ نہ ہو؛ چنانچہ ایسی قطع تعلقی جو گناہوں یا بدعات میں ملوث ہونے جیسے دینی اسباب کی وجہ سے ہو تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہم سے قطع تعلقی کا حکم دیا تھا۔
اسی لیے ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: کعب بن مالک کی اس حدیث میں ایسی قطع تعلقی کے جواز کی دلیل ہے کہ جب آپ کے بھائی سے کوئی ایسی غیر شرعی حرکت یا بدعت عیاں ہو جو لا تعلقی کا تقاضا کرے اور آپ کی قطع تعلقی پر آپ کے بھائی کے سدھر جانے کی امید بھی ہو ۔

ایسے ہی ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: گناہوں اور بدعات پر عمل کی وجہ سے لا تعلقی اس مقصد سے کرنا کہ بندہ راہ راست پر آ جائے اور توبہ تائب ہو جائے تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ: علمائے کرام کا مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی ناجائز ہونے پر اجماع ہے، ہاں اگر تین دن کے بعد بھی بات چیت جاری کرنے سے خدشہ ہو کہ مسلمان دینی طور پر مزید مخدوش ہو جائے گا، یا اسے دینی یا دنیاوی نقصان اٹھانا پڑے گا تو پھر ایسی صورت میں قطع تعلقی کی رخصت دی جاتی ہے۔ کتنی ہی خیر پر مبنی لاتعلقی ، موذی تعلق داری سے اچھی ہوتی ہیں۔" ختم شد
" طرح التثريب " ( 8 / 99 )

آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب آپ کے بھائی کی جانب سے کوئی حرام کام صادر ہوا تو آپ اسے نصیحت کریں، اس کام کی شرعاً حرمت بیان کریں اور بتلائیں کہ یہ کام جائز نہیں ہے، آپ اسے اللہ کی یاد دلائیں، اگر پھر بھی آپ اسے دیکھیں کہ گناہوں میں بڑھتا چلا جا رہا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے فاصلہ اور دوری رکھنے سے بہتری آ سکتی ہے تو پھر آپ اس سے لا تعلقی رکھ سکتے ہیں جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔

اور اگر محض آپ کی مرضی کے خلاف اس نے کام کیا ہے، یا کسی بھی معاملے میں اس کا نظریہ آپ کے مطابق نہیں تھا تو آپ اسے اپنی رائے اور مرضی بتلا دیں، لیکن اس معاملے میں آپ قطع تعلقی اپنائیں صرف اس لیے کہ آپ کے بھائی کو احساس ہو کہ آپ اس کے نظریے یا کام سے راضی نہیں ہیں تو ممکن ہے کہ آپ کی اس قطع تعلقی کو آپ کا دوست بالکل بھی قبول نہ کرے اور معاملات مزید بگڑ جائیں، پھر محض اس وجہ سے شرعاً آپ اپنے بھائی سے 3 دن سے زیادہ قطع تعلقی بھی نہیں کر سکتے شریعت میں اس کی گنجائش نہیں ہے، اور اوپر ہم شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتوی پڑھ چکے ہیں کہ قطع تعلقی کا اصل حکم حرمت کا ہے تا آں کہ کوئی ضرورت ہو۔

مسلمان کو وسیع الصدر ہونا چاہیے، اپنے بھائیوں کے لیے خیر خواہ بنے، اور ان کی طرف سے ہونے والی جفا برداشت کرے، ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرے، اور کوئی ایسا حل نہ اپنائے جس سے مسائل مزید الجھ جائیں اور حرام قطع تعلقی تک معاملات چلے جائیں۔

اللہ تعالی سب کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب