منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

گھر چھوڑ کر چلا گیا توکیا یہ طلاق شمار ہوگی ؟

22680

تاریخ اشاعت : 02-03-2004

مشاہدات : 4907

سوال

مرد نے تین مرتبہ اپنی بیوی کوچھوڑا ، اورہر بار گھر سے نکل جاتا لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا اورنہ ہی طلاق کا اشارہ دیا ، دوسری بارگھر سے باہرے جانے کے بعد بیوی نے خط وصول کیا جس میں خاوند کے گھرواپس آنے کی شروط تھیں اوراسی طرح یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر اس نے ان شرائط پر عمل نہ کیا تووہ طلاق دے دے گا ۔
توکیا پہلی دوبار بیوی کو چھوڑنا طلاق شمار ہوگا ؟
اورکیا یہ دونوں علیحدہ علیحدہ طلاقیں شمار ہوں گی ؟
یہ علم میں ہونا چاہیے کہ بیوی کواس کا کچھ علم نہيں کہ یہ طلاق شمار ہوگی اگرچہ یہ طلاق کی نیت سے ہی کیوں نہ ہو ، اورتیسری مرتبہ تو طلاق واضح تھی ، اس وقت خاوند دل کا مریض ہے اورعلاج کروا رہا ہے ، بیوی یہ محسوس کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اس کی سوچ میں تشویش کی بنا پر ہے ۔
وہ اب بھی اس کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے اوراس کا اہتمام بھی کرتی ہے ، لیکن امام صاحب کے قول کے مطابق تین طلاقیں مکمل ہوچکی ہیں ۔
توکیا واقعی تین طلاقیں پوری ہوچکی ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

صرف اکیلی نیت سے ہی طلاق نہیں ہوجاتی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( یقینا اللہ تعالی نے میری امت کواس کے نفس کی باتیں معاف کردی ہیں جب تک کہ وہ اس پر عمل نہ کرلیں یا پھر زبان پر نہ لے آئيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5269 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 127 ) ۔

بلکہ طلاق دوچيزوں میں سے ایک کےساتھ ہوتی ہے ، یا تو زبان سے کلام کرنے سے اوریا پھرلکھنے سے ۔

دیکھیں فتاوی الطلاق شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ص ( 53 - 54 ) ۔

تواس بنا پر پہلی اور دوسری مرتبہ طلاق کا وقوع نہیں ہوا اس لیے کہ خاوند نےنہ توطلاق کی بات کی اورنہ ہی لکھا ہے ۔

اورتیسری بار کے متعلق گزارش ہے کہ :

جیسا کہ سوال میں کہا ہے کہ ( اگرشروط پوری نہ کی گئيں توطلاق دے دے گا ) یہ بھی طلاق شمار نہيں ہوگی ، بلکہ یہ تو طلاق کا ڈراوا ہے ، اس لیے اگران شرائط کوپوری کردیا گیا ہو یا پوری نہیں کی گئیں دونوں حالتوں میں طلاق نہیں ہوئي ، اس لیے کہ ڈراوے اورتھدید سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ دیکھیں فتاوی الطلاق ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 56 ) ۔

اللہ تعالی ہی زيادہ علم رکھنے والا ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی رحمتیں نازل فرماۓ ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب