منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

ختنہ كرنے كى مصلحت اور فوائد اس كى درد سے زيادہ مفيد ہے

2425

تاریخ اشاعت : 18-04-2007

مشاہدات : 7344

سوال

كيا ختنہ كرانے ميں بہت زيادہ مصلحت اور فوائد پائے جاتے ہيں تا كہ ميں اپنے بچے كا ختنہ كرا سكوں حالانكہ ختنہ درد كا باعث ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں ختنہ كرانے ميں بہت مصلحت پائى جاتى ہے اور پھر اس ليے بھى كہ يہ رسولوں كى سنت ہے، اور فطرتى سنت ميں بھى شامل ہے، اور اس ميں مكمل صفائى اور پاكيزگى ہے، اور قضائے حاجت اور جماع كے وقت نافع اور صحيح ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ سوجن اور جلن جيسى بيماريوں سے بھى محفوظ رہا جاتا ہے، اس كے ليے علاوہ اور بھى كئى ايك فوائد ہيں جو ختنہ كرتے وقت قليل سى درد كو بھلا ديتے ہيں، اور پھر اگر ختنہ چھوٹى عمر كيا جائے تو بڑى عمر ميں ختنہ كرنے سے درد بھى كم ہوتى ہے.

اس پر مستزاد يہ كہ كئى ايك اہل علم نے تو مردوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنى كتاب " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

فصل: رہا ختنہ تو يہ مردوں كے ليے واجب ہے، اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا باعث عزت و تكريم ہے ليكن ان پر واجب نہيں، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

مرد كا ( ختنہ كرنا ) زيادہ شديد ہے، اس ليے كہ جب مرد كا ختنہ نہ كيا جائے تو عضو تناسل پر چمڑى لٹكى رہتى ہے، اور اس كے نيچے صفائى نہيں ہوتى، ليكن عورت كا معاملہ اتنا شديد نہيں بلكہ آسان ہے، ابو عبد اللہ كہتے ہيں: ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ مرد كے معاملہ ميں سختى كرتے تھے، اور ان سے مروى ہے كہ ختنہ نہ كرانے والے شخص كا نہ تو حج ہے اور نہ ہى نماز.

اور حسن اس ميں رخصت ديتے ہوئے كہتے ہيں: جب مرد اسلام قبول كر كے تو پھر كوئى پرواہ نہيں كہ وہ ختنہ نہ كرائے، اور ان كا كہنا ہے: سفيد و سياہ لوگ اسلام لائے ليكن ان ميں سے كسى ايك كى تفتيش نہ كى گئى اور انہوں نے ختنہ نہ كرايا.

ختنہ كرانے كے وجوب كى دليل يہ ہے كہ: سترپوشى واجب اور فرض ہے، اور اگر ختنہ كرانا واجب اور فرض نہ ہوتا تو پھر ختنہ كرنے كى بنا پر مختون شخص كى شرمگاہ كو ديكھ كر اس حرمت كو پامال كرنا جائز نہ تھا اور اس ليے بھى كہ يہ مسلمانوں كا شعار اور ان كى علامت ہے، اس ليے يہ واجب ہے، تو يہ بھى ان كے باقى شعار كى طرح ايك شعار ہوا.

اگر كوئى بڑى عمر كا شخص اسلام قبول كرے اور اس كا ختنہ كرنے سے اس كى جان كو خطرہ محسوس ہو تو ختنہ اس سے ساقط ہو جائيگا، كيونكہ غسل اور وضوء وغيرہ بھى جان كو خوف ہونے كى شكل ميں ساقط ہو جاتا ہے، تو اس كا ساقط ہونا زيادہ اولى ہے، اور اگر اسے اپنى جان كا امن ہو تو اسے ختنہ كرانا لازم ہے.

حنبل رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ميں نے ابو عبداللہ سے دريافت كيا كہ اگر ذمى شخص مسلمان ہو تو آپ كى رائے كيا ہے كہ آيا وہ ختنہ كرا كر پاك ہو گا يا نہيں ؟

تو ان كا جواب تھا:

اس كے ليے ايسا كرنا ضرورى ہے.

ميں نے كہا: اگر وہ بڑى عمر كا مرد يا بڑى عمر كى عورت ہو تو پھر؟

ان كا جواب تھا: مجھے تو يہى پسند ہے كہ وہ پاكى اختيار كرے، كيونكہ حديث ميں ہے " ابراہيم عليہ السلام نے اسى برس كى عمر ميں ختنہ كرايا تھا " اور اللہ تعالى كا فرمان ہے:

تمہارے باپ ابراہيم عليہ السلام كى ملت اور دين . الحج ( 78 ). انتہى.

اس ليے ـ مسلمان بھائى ـ آپ كو نصيحت ہے كہ آپ كسى ماہر اورتجربہ كار شخص سے اپنے بيٹے كا ختنہ ضرور كرائيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" پانچ كام فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، اور زيرناف بال مونڈنا، مونچھيں كاٹنا، اور ناخن تراشنا، اور بغلوں كے بال اكھاڑنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5441 ).

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد