جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

رمضان کے روزوں کی قضا پہلے دے یا قسم یا نذر کے کفارے کے روزے پہلے رکھے؟

سوال

میں نے ابھی رمضان کے روزوں کی قضا دینی ہے، اور مجھ پر قسم کے کفارے کے روزے بھی ہیں ، میں نے ایک بار سنا تھا کہ پہلے مجھے رمضان کے روزوں کی قضا دینی چاہیے اور اس کے بعد کفارے کے روزے رکھنے ہوں گے، تو کیا اس طرح ترتیب سے روزے رکھنا واجب ہے یا ترتیب آگے پیچھے بھی ہو سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس پر رمضان کے روزے ابھی باقی ہوں تو آئندہ رمضان سے پہلے وہ ان روزوں کو رکھ سکتا ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: جس شخص پر رمضان کا روزہ ہو تو جب تک اگلا رمضان نہیں آتا اس سے پہلے پہلے وہ روزہ رکھ سکتا ہے؛ اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: (مجھ پر ماہ رمضان کے روزے باقی ہوتے تھے اور میں اس وقت تک نہیں رکھ پاتی تھی کہ شعبان کا مہینہ آ جاتا تھا) متفق علیہ۔ لہذا آئندہ رمضان کے آنے تک بلا عذر روزوں کی قضا میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رمضان تک ان روزوں کو مؤخر نہیں کیا، اگر رمضان کے بعد تک ان کیلیے مؤخر کرنا ممکن ہوتا تو وہ کر لیتیں " ختم شد
"المغنی" (3/85)

قسم کے کفارے کے حوالے سے اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا قسم کا کفارہ فوری ادا کرنا ضروری ہے، یا تاخیر ہو سکتی ہے؟

اس بارے میں موسوعہ فقہیہ (10/14) میں ہے کہ:
"جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ قسم کے کفارے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ جیسے ہی قسم ٹوٹی تو کفارہ اسی وقت واجب ہو گیا تھا؛ کیونکہ جب کسی حکم کی تعمیل کا وقت مقید نہ ہو تو ایسی صورت میں اصول یہی ہے کہ اس کی تعمیل فوری ضروری ہوتی ہے۔" ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قسم کا تحفظ کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کا کفارہ فوری طور پر ادا کیا جائے، چنانچہ کفارہ فوری طور پر واجب ہو جاتا ہے؛ کیونکہ واجب امور میں اصل یہی ہے کہ ان کی تعمیل فوری طور پر ضروری ہوتی ہے، یعنی جو قسم کے تقاضے ہیں انہیں فوری پورا کیا جائے"  ختم شد
" القول المفيد على كتاب التوحيد " (2/ 456) ، اسی طرح دیکھیں:: "الشرح الممتع" (15/159)

جبکہ شافعی فقہائے کرام کے ہاں صحیح ترین موقف کے مطابق یہ ہے کہ اگر قسم توڑنے کا سبب معصیت ہو تو پھر فوری طور پر اس کا کفارہ دینا ضروری ہے، مثلاً: کوئی شخص کہہ دیتا ہے کہ میں فلاں گناہ نہیں کروں گا، لیکن وہ پھر بھی کر لیتا  ہے تو فوری طور پر اس کا کفارہ دینا ہو گا۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کفارے کی ادائیگی کے حوالے سے یہ ہے کہ اگر کفارہ کسی عمداً زیادتی کی وجہ سے لازم نہیں ہوا، جیسے کہ قتل خطا  اور قسم کا بعض صورتوں میں کفارہ ہوتا ہے تو ان کی ادائیگی تاخیر سے بھی ہو سکتی ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں اس کا عذر قابل قبول ہے۔

لیکن اگر کفارہ کسی عمداً زیادتی کی وجہ سے لازم ہوا ہو تو پھر فوری طور پر کفارے کی ادائیگی کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ اس بارے میں دو موقف ہیں یہ دونوں موقف قفال اور دیگر شافعی فقہائے کرام نے بیان کیے ہیں، ان دونوں میں سے صحیح ترین یہ ہے کہ ایسی صورت میں کفارہ فوری طور پر ادا کرنا ضروری ہے۔" ختم شد
"المجموع" (3/70)

تو جمہور فقہائے کرام کے مطابق فوری طور پر قسم کا کفارہ ادا کرنا لازمی ہے اس لیے کفارہ رمضان کے روزوں پر مقدم ہو گا؛ کیونکہ رمضان کے روزوں کی قضا تاخیر سے بھی ممکن ہے۔

لیکن اگر وقت کم ہو اور آئندہ رمضان کے شروع ہونے میں چند دن ہوں کہ قضا اور کفارے دونوں کے روزے رکھنا ممکن نہ ہوں تو پھر ایسی صورت میں قضا کے روزے پہلے رکھے  گا کیونکہ ان کی ادائیگی کا حکم اس وقت زیادہ مؤکد ہو چکا ہے۔ اہل علم نے نذر کے روزوں پر رمضان کے روزوں کو مقدم رکھا ہے اور اس بارے میں صراحت بھی کی ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر رمضان کے روزے کسی عذر کی بنا پر رہ جائیں  اور عذر زائل ہو جائے تو پھر رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا دینا واجب ہے؛ کیونکہ وہ نذر کے روزوں سے زیادہ مؤکد ہیں" ختم شد
"المجموع" (6/391)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب