منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

پچھلے سالوں كى زكاۃ كى ادائيگى

سوال

ميں نے پچھلے برسوں كي زكاۃ ادا نہيں كى اس كا سبب ميرا صراط مستقيم سے دورى تھى، الحمد للہ ميں پچھلے برس اسلام كى طرف پلٹا ہوں، اور مال كما رہا ہوں ميں اب زكاۃ كى ادائيگى اور حتى الامكان اپنے ماضى كى اصلاح كرنا چاہتا ہوں، ماضى ميں ميرے ذمہ كچھ قرض ہے جو ميں اب تك ادا نہيں كر سكا، لہذا ميں پچھلے برسوں كى زكاۃ كيسے ادا كر سكتا ہوں، اور كيا يہ زكاۃ قبول ہو گى كيونكہ ميں پچھلے برسوں ميں ادا نہيں كرسكا، اور اب ميں حرام مال كے ساتھ قرض كى ادائيگى كرونگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كى ہدايت پر ہم اللہ تعالى كا شكر اور اس كى تعريف كرتے تھے، ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو ثابت قدم ركھے، اور آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ اللہ تعالى غفور الرحيم ہے، اور وہ اپنے بندے كى توبہ سےـ حالانكہ وہ اپنى مخلوق سے سے غنى اور بے پرواہ ہے ـ بہت خوش ہوتا ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنے فضل سے اور بھى زيادہ عطا فرمائے.

جس مال كے آپ پچھلے برسوں ميں مالك تھے، اس ميں سے ہر برس كا قرض نكال كر آپ كو ہر برس كى زكاۃ ادا كرنا ہوگى، اگر آپ كسى بھى برس كى يقينى رقم جانتے ہيں تو اس كى زكاۃ آپ كے ذمہ ہے، اور اگر آپ كو مال كى مقدار كا علم نہ ہو سكے تو آپ اس كى تحديد كرنے ميں كوشش اور جدوجھد كريں، اور اس كا اندازہ لگا كر زكاۃ ادا كر ديں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے پانچ برس تك زكاۃ كى ادائيگى ميں سستى اور كاہلى سے كام ليا، اور اب اس نے ايسا كرنے سے توبہ كرلى ہے، تو كيا توبہ اس كى زكاۃ نكالنے كو ساقط كر ديتى ہے؟

اور اگر زكاۃ ساقط نہيں ہوئى تو اس كا حل كيا ہے؟ اور اس مال كى مقدار دس ہزار سے زيادہ ہے، ليكن اب وہ مقدار كا علم نہيں ركھتا ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

زكاۃ اللہ تعالى كى عبادت اور فقراء و مساكين كا حق ہے، اگر كوئى شخص زكاۃ ادا نہيں كرتا تو وہ دو حقوق كو توڑنے كا مرتكب ہوا، ايك تو اللہ تعالى كا حق، اور دوسرا فقراء و مساكين وغيرہ كا حق، لہذا جب وہ پانچ برس بعد توبہ كرلے ـ جيسا كہ سوال ميں ہے ـ تو اس كے ذمہ سے اللہ تعالى حق ساقط ہو جاتا ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور وہ اللہ تعالى اپنے بندوں كى توبہ قبول فرماتا اور ان كى برائيوں كو معاف كرنا والا ہے الشورى ( 25 ).

اور دوسرا حق باقى رہ جاتا ہے، جو فقراء و مساكين وغيرہ مستحقين زكاۃ كا حق ہے، لہذا اس پر واجب ہے كہ وہ زكاۃ انہيں ادا كرے، اور ہو سكتا ہے توبہ كى بنا پر اسے زكاۃ كى ادائيگى كا اجروثواب بھى حاصل ہو؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فضل بہت وسيع ہے.

اور رہا مسئلہ زكاۃ كا اندازہ لگانا: تو اسے حسب استطاعت زكاۃ كى مقدار كا اندازہ لگانے كى كوشش كرنا ہوگى، اور پھر اللہ تعالى بھى صرف اتنى ہى تكليف ديتا ہے جتنى كسى ميں استطاعت ہو، مثلا: اگر دس ہزار ہو تو پھر سال ميں كتنى زكاۃ ہو گى؟ اس ميں دو سو پچاس، اور اگر زكاۃ كى مقدار دو سو پچاس تو پچھلے برسوں كى دو سو پچاس كے حساب سے ہرسال كى زكاۃ نكال دے، ليكن اگ كسى سال مال زيادہ ہو گيا ہو تو پھر اس زيادہ مقدار كى بھى زكاۃ نكالنا ہو گى، اور اگر مال ميں كسى برس كمى ہوئى ہو تو كمى ہونے كى بنا پر زكاۃ بھى ساقط ہو گى.

ديكھيں: اسئلہ الباب مفتوح س ( 494 ) لقاء ( 12 ).

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب