منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

ہر انسان کا جنوں میں سے ایک ہم نشین ہے

26226

تاریخ اشاعت : 01-01-2004

مشاہدات : 16100

سوال

کیا الاسلام میں قرین (ہم نشین) نامی کسی چیز کا وجود ہے؟ میری خواہش ہے کہ اگر میرا کوئی ہم نشین ہے تو میں اسے پہچانوں تو اسلام اس کے متعلق کیا کہتا ہے یا کہ اصلا اس کا وجود ہی نہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی ہاں جسے ہم نشین یا قرین کا نام دیا جاتا ہے اسکا وجود ہے جسے اللہ تعالی نے انسانوں میں سے ہی ایک کے ساتھ لگا رکھا ہے اور یہ وہی ہے جو اپنے ساتھی کو شر اور گناہ کی طرف دھکیلتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جسکا ذکر آئندہ چل کر آئے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے۔

"اسکا ہم نشین کہے گا (شیطان) اے ہماری رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں"

ق27-29

ابن کثیر کا قول ہے کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد اور قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ شیطان ہے جسے اس کام پر لگایا گیا ہے۔ "ربنا ما اصغیتہ" یعنی ما اظللۃ میں نے انہیں گمراہ نہیں کیا۔ "ولکن کان فی ضلال بعید" یعنی بلکہ وہ خود ہی گمراہ اور باطل کو قبول کرنے والا اور حق کا دشمن تھا جس طرح کہ اللہ تعالی نے دوسری آیات میں خبردی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور جب کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے انکی وعدہ خلافی کی ہے میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے مان لی پس اب تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ تو میں تمہاری فریاد رسی کرنے والا اور نہ تم میری فریاد تک پہنچنے والے میں تر سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقینا ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔" ابراہیم 22

اور اللہ تعالی کا یہ فرمان "بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو" تو اللہ جل جلالہ انسان اور جنوں میں سے انکے قرین کو فرمائے گا کیونکہ وہ اللہ تعالی کے سامنے جھگڑا کررہے ہوں گے تو انسان کہے گا اے رب مجھے حق آجانے کے بعد اس نے گمراہ کیا تھا اور شیطان یہ کہے گا "ربنا ما اطغیتہ ولکن کان فی ضلال بعید" (اے ہمارے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا) یعن منہج حق سے دور تھا۔

تو اللہ عزوجل فرمائے گا "لا تختصموا لدی" (بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو) یعنی میرے پاس "میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا" یعنی میں نے تمہارا یہ عذر رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے ختم کردیا اور تم پر حجت اور دلیل اور برہان قائم ہوچکا۔ "میرے ہاں بات بدلتی نہیں" مجاہد کہتے ہیں یعنی میں نے فیصلہ کرنا تھا وہ کرچکا۔ "اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں" یعنی میں کسی کو کسی دوسرے کے گناہ کے بدلے میں عذاب نہیں دونگا لیکن ہر ایک پر حجت قائم ہونے کے بعد اسے اسکے گناہ کا عذاب ہوگا۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر (4/227)

اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے مگر اسکے ساتھ ایک جنوں میں سے ہم نشین لگایا گیا ہے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی؟ تو آپ نے فرمایا میرے ساتھ بھی لیکن یہ اللہ تعالی نے اس پر میری مدد کی ہے تو وہ مسلمان ہوگیا ہے اور مجھے صرف نیکی کا حکم کرتا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ ایک ہم نشین جنوں میں سے اور ایک فرشتوں میں سے۔

اسے مسلم نے (2814) روایت کیا ہے۔

اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب یہ باندھا ہے (باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس وان مع کل انسان قرینا) باب ہے شیطان کے برانگیختہ کرنےاور دھوکہ دینے اور اپنے لشکر کو لوگوں میں فتنہ میں ڈالنے کے لئے روانہ کرنا اور ہر انسان کے ساتھ ایک ہم نشین (قرین) ہے۔

امام نووی کہتے ہیں کہ (فاسلم) میم کو فتح اور ضمہ کے ساتھ اور یہ دونوں روایتیں مشہور ہیں تو جو رفع پڑھے گا اسکا معنی ہوگا کہ میں اس کے فتنہ اور شر سے محفوظ ہوگیا ہوں۔ اور جو فتح کے ساتھ پڑھتا ہے تو اسکا معنی یہ ہوگا کہ وہ قرین مسلمان اور مومن ہوگیا تو مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔

اور راجح کے متعلق اختلاف ہے۔ خطابی کا قول ہے کہ صحیح اور مختار یہی ہے کہ رفع (پیش) پڑھا جائے اور قاضی عیاض نے فتح کو راجح قرار دیا ہے اور وہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ وہ مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔ اور فتح کی روایت پر معنی میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ اسلم تسلم اور انقاد کے معنی میں ہے یعنی میرا مطیع ہوگیا ہے اور یہ مسلم کی روایت کے علاوہ روایات میں لفظ بھی آئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ اسکا معنی یہ ہے کہ وہ مسلمان اور مومن ہوگیا ہے اور یہی ظاہر ہوتا ہے قاضی کا کہنا ہے کہ جان لو کہ امت اس پر مجتمع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے جسمانی اور زبانی اور حواس کے اعتبار سے بھی بچائے گئے ہیں۔

تو اس حدیث میں ہم نشین (قرین) کے فتنہ اور وسوسہ اور اسکے اغوا کے متعلق تخدیر ہے یعنی اس سے بچنا چاہئے کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔

دیکھیں شرح مسلم (17/157-180)

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر کوئی آپ میں نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو آگے سے نہ گزرنے دے اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اسے مسلم نے (506) روایت کیا ہے۔

شوکانی کا قول ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اور قاموس میں ہے کہ القرین۔ المقارن ساتھ ملے ہوئے۔ الصاحب ہم نشین کو کہتے ہیں اور شیطان انسان کے ساتھ ملا ہوا ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتا اور یہاں سے مراد بھی یہی ہے دیکھیں نیل الاوطار (3/7)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب