جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

مسلمان اور كافر كي ايك دوسرے كووصيت كا حكم

2722

تاریخ اشاعت : 06-02-2005

مشاہدات : 7133

سوال

مسلمان كا اپنےايك تہائي سے كم مال ميں سے كافر كووصيت كرنےكا حكم كيا ہے ، اور اس كےبرعكس كا حكم كيا ہوگا يعني كيا اگر كافر نےمسلمان شخص كےليےوصيت كي ہوتومسلمان اس كا مال قبول كرلے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فقھاء اسلام احناف اور حنابلہ اوراكثر شافعي متفق ہيں كہ جب مسلمان كي جانب سےكسي ذمي شخص كےليےوصيت كرے تواسےنفاذ پر متفق ہيں اور اسي طرح ذمي كي جانب سے مسلمان كےليے كي گئي وصيت بھي شرعي شروط كےساتھ نافذ كي جائےگي فقھاء نےمندرجہ ذيل فرمان باري تعالي سےاستدلال كيا ہے :

جن لوگوں نے تم سے دين كےبارہ ميں لڑائي نہيں لڑي اور تمہيں جلاوطن نہيں كيا ان كےساتھ سلوك واحسان كرنےاور منصفانہ بھلا برتاؤ كرنے اللہ تعالي تمہيں نہيں روكتا، بلكہ اللہ تعالي تو انصاف كرنےوالوں سے محبت كرتا ہے الممتحنۃ ( 8 )

اور اس ليے كہ كفر ملكيت حاصل كرنےكي اھليت ميں كوئي مانع نہيں ، اور جس طرح كافر كي فروخت اور ھبہ كرنا جائزہے اسي طرح اس كي وصيت بھي جائزہے .

اور بعض شافعي علماء كي رائے ہے كہ ذمي كےليےوصيت اس وقت صحيح ہوگي جب اس كي تعيين كي جائے مثلا يہ كہے كہ: ميں نےفلان شخص كےليے وصيت كي ، ليكن اگر اس نےيہ كہا كہ: ميں نےيھودي يا عيسائيوں كےليے وصيت كي ... تو وصيت صحيح نہيں ہوگي ، اس ليےكہ اس نے كفر كو وصيت پر محمول كيا ہے .

اور مالكي علماء دوسروں كي موافقت كرتےہيں كہ ذمي كي مسلمان كےليے وصيت صحيح ہے ، ليكن مسلمان كي ذمي كےليے وصيت كےبارہ ميں ابن القاسم اور اشھب ايك شرط كي ساتھ جائز قرار ديتےہيں كہ جب وہ وصيت صلہ رحمي يعني رشتہ داري كي بنا پر ہو تو صحيح ہے وگرنہ مكروہ ، اس ليے كہ مسلمان كو چھوڑ كركافر كےليے وصيت تو وہي شخص كرتا ہے جس كےايمان ميں مرض ہو .

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 312 )

آج ہم بعض مسلمانوں اور خاص كر وہ جو كفار كےممالك ميں رہائش اختيار كيے ہوئے انہيں ديكھتےہيں كہ وہ اپنے مال ميں سے ايك خطير رقم يہودي اور عيسائي يا دوسري كفار كي تنظيموں كےليے وقف كرتے اور ان كے ليےوصيت كرتےہيں اور دليل يہ ديتےہيں كہ يہ خيراتي يا تعليمي يا انساني تعاون كي تنظيميں ہيں حالانكہ اس سےمسلمانوں كو كوئي فائدہ نہيں ہوتا، بلكہ اس بڑي رقم سے كفار ہي فائدہ اٹھاتےہيں اوريہ مسلمان اپنےمسلمان بھائيوں كوگھروں سےبےگھر اور بھوكے رہنےديتےہيں دنيا ميں كوئي بھي ان كي مدد وتعاون نہيں كرتا جو كہ ايمان كي كمزوري اور خاتمہ كي علامات ميں سے ہے .

اور اسي طرح كفاراور ان كےمعاشرہ سےدوستي و تعاون اور ان سے خوش ہونا ہے ہم اللہ تعالي سے عافيت وسلامتي كي دعا كرتےہيں ، اللہ تعالي ہمارے نبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم پر اپني رحمتيں برسائے .

واللہ اعلم  .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد