جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

روزے کی حالت میں ہونٹ کی جلد کاٹ کر نگل لی، اس کا کیا حکم ہے؟

سوال

نماز فجر کے دوران میں نے اپنے دانتوں سے معمولی سی ہونٹ کی جلد کاٹی اور منہ میں داخل کر لی، اور منہ میں داخل کرنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میرا تو روزہ تھا! پھر میں نے اپنی زبان سے اس معمولی سے ٹکڑے کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے کامیابی نہیں ملی، تو میں نے منہ میں جمع شدہ  پانی نگل لیا؛ مبادا یہ پانی نماز کے دوران میرے منہ سے باہر نہ گر جائے، اب سوال یہ ہے کہ کیا میرا روزہ ٹھیک ہے؟

اور کیا یہ ضروری تھا کہ میں نماز چھوڑ دیتا اور کلی کر کے آتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص ہونٹ کی جلد اپنے دانت سے کاٹ لے تو اس جلد کو تھوکنا لازمی ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص بھول کر نگل لے، یا جلد کا ٹکڑا اسے نہ ملے، یا اس ٹکڑے کو نکالنا مشکل ہو جائے اور وہ اپنے تھوک کے ساتھ اسے نگل جاتا ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے، اس پر کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے؛ کیونکہ اگر وہ ٹکڑا موجود بھی تھا تو  اس شخص نے اس ٹکڑے کو عمداً نہیں نگلا۔

شرح منتہی الارادات: (1/483) میں ہے کہ:
"یا فجر کا وقت ہو جائے اور اس کے منہ میں کھانا ہو تو وہ اسے تھوک دے، یعنی باہر نکال دے، اگر اس کیلیے نکالنا ممکن نہ ہو اور   غیر ارادی طور پر نگل جائے  تو اس کا روزہ خراب نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس سے بچنا مشقت طلب کام تھا۔

لیکن اگر اس کھانے کو اپنے تھوک سے الگ کر لیا اور اپنی مرضی سے اسے نگل لیا تو  امام احمد نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے" ختم شد

تو چونکہ آپ نے جلد کے اس معمولی ٹکڑے کو عمداً نہیں نگلا، اس لیے آپ پر کچھ نہیں ہے، نہ ہی آپ پر یہ لازم تھا کہ آپ نماز توڑ کر  پہلے کلی کریں؛ بلکہ ایسے معمولی کام کیلیے نماز توڑنا حرام ہے، آپ پر صرف اتنا لازمی بنتا تھا کہ اس ٹکڑے کو آپ منہ سے نکال دیں، اس کیلیے انگلی استعمال کریں یا رومال وغیرہ سے صاف کر لیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب