منگل 14 شوال 1445 - 23 اپریل 2024
اردو

دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور اس کا طریقہ

278664

تاریخ اشاعت : 23-08-2018

مشاہدات : 16791

سوال

کچھ لوگ دو سجدوں کے درمیان صرف اتنا سا اٹھتے ہیں کہ ان کی کمر جھکی ہوئی ہوتی ہے اور وہ زمین کے بالکل قریب ہوتے ہیں ، یعنی جلسہ صحیح نہیں کرتے کہ کمر بالکل سیدھی ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ایک عورت نے میرے سامنے اس طرح کیا تھا تو میں اس کے حکم پر اطمینان کر لینے کے بعد اُسے سمجھانا چاہتی ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دو سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنا  نماز کے  واجب ارکان میں سے ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غلط طریقے سے نماز پڑھنے والے شخص کو اس طرح بیٹھنے کا حکم دیا تھا۔

جیسے کہ  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : "رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں داخل ہوئے تو اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ: (واپس جا اور نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی)  وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسے اس نے پہلے پڑھی تھی، پھر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کو سلام کیا، آپ نے فرمایا کہ (واپس جا اور نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی)   اسی طرح تین مرتبہ  ہوا ،  تب وہ بولا کہ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر ادا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا آپ مجھے نماز سکھا دیں، تو  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد جو قرآن تم کو یاد ہو اس میں سے پڑھو، پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں اطمینان ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو) " بخاری: (757) مسلم: (397)

تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے  اور بیٹھ کر اطمینان کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسی طرح رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ  "ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا"۔۔۔ پھر سابقہ حدیث کی طرح واقعہ بیان کیا اور اس میں آگے چل کر انہوں نے بتلایا کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ۔۔۔ پھر وہ [نمازی]اللہ  اکبر کہے، اور اپنا سر اٹھائے یہاں تک کہ وہ بالکل سیدھا بیٹھ جائے، پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے سارے جوڑ اطمینان پا لیں، وہ پھر اپنا سر اٹھائے اور اللہ اکبر کہے، اگر نمازی یہ کر لے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی) اس حدیث کو ابو داود: (857) اور نسائی: (1136) نے روایت کیا ہے، نیز اسے البانی رحمہ اللہ نے "صحیح سنن ابو داود " (857) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اور جب کسی چیز کا حکم دیا جائے تو وہ کام واجب ہوتا ہے، یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔

جیسے کہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"فقہائے کرام نے بار ہا مرتبہ اس حدیث میں موجود تمام افعال کے واجب ہونے پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے" ختم شد
"احكام الأحكام" (1 / 234)

اسی لیے حنبلی اور شافعی فقہائے کرام یہ موقف رکھتے ہیں کہ دو سجدوں کے درمیان جلسہ واجب ہے، جیسے کہ ابن قدامہ کی کتاب: المغنی (2/204-205) میں اور اسی طرح نووی کی کتاب:  المجموع (3/437) میں  ذکر کیا گیا ہے۔

نیز مالکی اور حنفی فقہائے کرام میں سے بھی  ایک اہل علم کا گروہ دو سجدوں کے درمیان جلسہ کو واجب کہتا ہے۔

اس کیلیے آپ  فقہ مالکی کی کتاب: "مواهب الجليل" (2 / 215 - 216)  اور اسی طرح فقہ حنفی کی کتاب: "حاشية ابن عابدين" (1 / 464 - 465)  کا مطالعہ کریں۔

بلکہ حنبلی فقہائے کرام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ  یہ دو سجدوں کے درمیان جلسہ نماز کے ارکان میں سے ہے، کسی حالت میں یہ ساقط نہیں ہوتا۔

جیسے کہ " مطالب أولي النهى " میں ہے کہ:
"فصل: نماز کے افعال اور اقوال تین اقسام میں منقسم ہیں: پہلی قسم: ایسے افعال یا اقوال  جو عمداً یا سہواً یا لا علمی کی بنا پر بھی ساقط نہیں ہوتے، انہیں ارکان  نماز کہتے ہیں؛ کیونکہ ان افعال یا اقوال کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں، تو انہیں رکن  اس لیے کہا جاتا ہے کہ جس طرح [عرب زبان میں رکن ستون کو کہتے ہیں تو] رکن کے بغیر کوئی عمارت بھی نہیں کھڑی ہو سکتی تو اسی طرح کوئی عبادت بھی ان ارکان کے بغیر کھڑی نہیں ہو سکتی، جبکہ کچھ اہل علم نے انہیں فرائض کا نام دیا  ہے، تاہم ارکان اور فرائض میں کوئی فرق نہیں ہے صرف نام کا اختلاف ہے۔۔۔ "
پھر انہوں نے نماز کے چودہ ارکان گنوائے اور کہا:
"آٹھواں رکن: سجدے سے اٹھنا۔
نواں رکن: دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غلط نماز ادا کرنے والے کیلیے فرمایا تھا: (پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ)
دسواں رکن: ہر عملی رکن میں اطمینان ۔ مثلاً: رکوع میں، رکوع سے  اٹھنے کے بعد، سجدے میں، دو سجدوں  کے درمیان جلسے میں؛ کیونکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ : "انہوں نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو اپنا رکوع اور سجدہ صحیح سے نہیں کر رہا تھا، تو حذیفہ  نے انہیں کہا: تم نے نماز ہی نہیں پڑھی، اگر تم مر گئے تو تمہاری موت اس فطرت [یعنی دین ]پر نہیں ہو گی جس پر اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پیدا فرمایا تھا" اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے، اور اطمینان کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر رکن میں پہنچ کر ایک پر سکون حالت اختیار کریں خواہ تھوڑی دیر کیلیے ہی کیوں نہ ہو، اطمینان کا عربی میں معنی ذکر کرتے ہوئے امام جوہری کہتے ہیں: عربی میں " اِطْمَأَنَّ الرَّجُلُ اطْمِئْنَانًا، وَطُمَأْنِينَةً "اس وقت کسی آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے: جب وہ سکون کرے " ختم شد
دیکھیں: "مطالب أولي النهى" (1/496-498)  اسی طرح "كشاف القناع" (1/385) اور اس کے بعد والے صفحات کا مطالعہ کریں۔

دوم:

نماز کے ارکان بیان کرتے ہوئے پہلے گزر چکا ہے کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور پھر بیٹھتے ہوئے اطمینان کرنا نماز کیلیے دو الگ الگ واجب اور ارکان ہیں، جیسے کہ حنبلی فقہائے کرام نے ان کی صراحت بھی کی ہے۔

پھر اطمینان کی حد بندی یہ ہے کہ انسان بیٹھ کر ایک بار ٹھہر جائے  چاہے معمولی سا ہی ٹھہراؤ کیوں نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں سجدوں کے درمیان اس کا حکم دیا اور فرمایا: (تم اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ تم اطمینان سے بیٹھ جاؤ)

بلکہ صحیح ابن خزیمہ: (590) کی ایک روایت میں ہے کہ: (پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ تم مکمل طور پر بیٹھ جاؤ)

تو یہاں پر بالکل واضح ہو گیا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے سے متعلق یہ ہے کہ  مکمل طور پر بیٹھ جائیں، سکون کریں۔

لہذا اگر کوئی نمازی دو سجدوں کے درمیان جلسہ کرتے ہوئے واجب مقدار میں بھی سیدھا نہیں بیٹھتا بلکہ اس کی حالت بیٹھنے کی بجائے سجدے کے قریب ہے تو اہل علم ایسے شخص کی نماز کے باطل  ہونے کا حکم لگاتے ہیں

جیسے کہ رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص حالت نماز میں قیام کے دوران جان بوجھ کر علم رکھتے ہوئے اتنا جھک گیا  کہ قیام کی حالت سے باہر ہو گیا تو اس کی نماز باطل ہو جائے چاہے وہ رکوع کی حد تک نہ بھی پہنچا ہو؛ کیونکہ وہ نماز میں کھلواڑ کر رہا ہے، یہی بات سجدے کے متعلق بھی کہی جائے گی" ختم شد
"نهاية المحتاج" (2/48)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب