جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مسلمان شخص سے تعلق كے بعد شادى كرنے كے ليے مسلمان ہونا ضرورى ہے

3023

تاریخ اشاعت : 13-12-2009

مشاہدات : 8080

سوال

ميں عيسائى لڑكى ہوں اور ايك انيس برس كے مسلمان نوجوان مسلمان سے محبت كرتى ہوں، يہ اس نوجوان كى مہربانى ہے كہ اس نے ميرے ساتھ تعلق قائم كيا حالانكہ ميں كنوارى نہيں، اس نے مجھ سے شادى كرنے كا مطالبہ كيا ہے اور ميں اس كى يہ پيشكش قبول كرنے كا پروگرام بنا رہى ہوں.
تو كيا جب ميں اس سے شادى كر لوں تو ميرے ليے اسلام قبول كرنا ضرورى ہے چاہے ميں اسلام كى رغبت نہ بھى ركھوں، ہم نے اپنى پيدا ہونے والى اولاد كے متعلق بھى بات كى ہے اور اس پر متفق ہوئے ہيں كہ ہمارى اولاد مسلمان ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں آپ كے ليے اسلام ميں داخل ہونا اور دين اسلام كو قبول كرنا ضرورى ہے، اس طرح آپ كى سارى مشكلات جو عقد نكاح اور اولاد كے متعلق ہونگى مكمل طور پر حل ہو جائينگى اور آپ دونوں اپنى اولاد كى ايك نہج پر اكٹھے ہو كر صحيح اسلامى تربيت كر سكيں گے اور اس كے نتيجہ ميں آپ كو دنيا اور آخرت كى سعادت و كاميابى حاصل ہو گى اور موت كے بعد راحت نصيب ہو گى.

اور آپ يہ قدم اٹھانے ميں جو عدم رغبت محسوس كر رہى ہيں ہو سكتا ہے اس كا سبب يہ ہو كہ آپ كے ليے وہ دين اور رسم و رواج جس پر آپ كى پرورش ہوئى ہے اسے چھوڑنا مشكل معلوم ہو رہا ہے، يا پھر اپنے خاندان اور گھر والوں اور دوست و احباب كى مخالفت كرنا ناپسند محسوس ہوتا ہو، يا پھر دوسروں كى جانب سے اذيت و نقد كا خدشہ ہو، يا پھر بعض دنياوى امتيازات كے كھوجانے كا خطرہ ہو.

ليكن ان سب پر بڑى آسانى سے كنٹرول كيا جا سكتا ہے اور اس پر غلبہ حاصل كرنا بہت آسان ہے، اس كے ليے صرف آپ كو اللہ پر توكل و بھروسہ اور حق كى اتباع و پيروى كا پختہ عزم كرنے كى ضرورت ہے، كيونكہ عقلمند انسان تو حق كى راہ ميں قربانى دينے اور مشكلات برداشت كرنے كے ليے تيار رہتا ہے، اس ليے كہ حق اس بات كى زيادہ حق ركھتا ہے كہ اسے تسليم كرتے ہوئے حق كى اتباع كى جائے.

اور حق كى راہ ميں آنے والى ہر مشكل و مصيبت بڑى آسان ہوتى ہے كيونكہ اس كا نتيجہ دنيا و آخرت كى سعادت مندى اور جنت كے حصول كى كاميابى ہے جس كى چوڑائى آسمان و زمين كے برابر ہے.

پھر آپ كى يہ شادى معيشت كے ليے آپ كى ممد و معاون ہو گى اور آپ كے خاوند سے ـ جب وہ حرام تعلقات سے توبہ كر لے اور اخلاق و دين كو اختيار كرے ـ محبت و الفت كى ممد و معاون بنے گى، اور خاوند كے مسلمان گھر والے بھى معاونت كرينگے.

اور آپ دونوں ميں كوئى دينى اختلاف نہيں ہو گا جب پر بچوں كى تربيت ہو اور وہ خاندانى طور پر بھى گھر ميں كوئى اختلاف محسوس نہيں كرينگے جس ميں انہيں رہنا ہے، اس طرح وہ والدين ميں پيدا ہونے والے اختلاف كے نتيجہ ميں نفسياتى بيمارى سے بھى دور رہينگے جو ان لوگوں كے ہاں پيدا ہوتا ہے جن ميں اختلاف ہو، جسے آپ بھى محسوس كر رہى ہيں اور جس كا ذكر درج ذيل قصہ ميں بھى ملتا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ہوا:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو كہا: اسلام قبول كر لو تو اس نے جواب ميں عرض كيا: ميں اپنے اندر گھٹن محسوس كرتا ہوں، تو آپ نے فرمايا: اسلام قبول كر لو چاہے ناپسند كرتے ہو "

اسے امام احمد نے مسند احمد حديث نمبر ( 11618 ) ميں روايت كيا ہے، اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 974 ) ميں بھى ہے.

تو يہى وہ صحيح موقف ہے جو انسان كے ليے دين حق ميں آنے كے وقت اختيار كرنا واجب ہے.

اس موضوع كے متعلق مزيد معلومات ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 3025 ) اور ( 2527 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

ہمارى خواہش ہے كہ آپ كو ہم قسم كى خير و بھلائى اور نجات و كاميابى حاصل ہو، اور سلامى اس پر ہى ہے جس نے ہدايت كى پيروى كى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد