ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

ابوبکراورعمر رضي اللہ تعالی عنہما، افضل اورزیادہ عالم ہیں یا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ

34577

تاریخ اشاعت : 01-05-2003

مشاہدات : 17847

سوال

اگرہم یہ چاہيں کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف میلان نہ رکھیں حالانکہ وہ صحابہ کرام میں سب سے اعلی اورافضل مرتبہ رکھتے ہیں ، حدیث صرف ان کے مجاھد ہونے کے ناطے سے ہی تعریف نہیں کرتی بلکہ وہ اپنے علم اورفقہ کے اعتبار سے ایک مثالی شخص تھے ۔
یہاں تک کہ ابوبکراورعمر رضی اللہ تعالی عنہما ہیشہ وہ مسائل علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کرتے تھے جوان پر مشکل ہوتے اوران کے جواب کا علم نہ ہوتا تواس طرح وہ دونوں علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مرتبہ میں اعلی و افضل کیسے ہوۓ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اس میں کوئ شک وشبہ نہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سب لوگوں سے زیادہ عقل مند اورذھین وفتین تھے ، اوربہادری وشجاعت اوراقدام میں شہرت اورید طولی رکھتے تھے ، اوربچو‍ں میں سب سے پہلے وہی تھے جواسلام لاۓ اورپھرھجرت سے پہلے تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مکہ سے نکلے توعلی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیچھے مکہ میں چھوڑا اوروہ اس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پرشب بسری کرتے ہیں ۔

اورعلی رضی اللہ تعالی عنہ کے منقاب وفضائل میں یہ بھی ثابت ہے کہ :

سھل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :

میں اس شخص کوجھنڈا دونگا جس کے ھاتھ پراللہ تعالی فتح نصیب فرماۓ گا ، توصحابہ کرام یہ سوچنے ہوۓ اٹھے کہ یہ جھنڈا کسے دیا جاۓ گا ، اوردوسرے دن سب آۓ تو ہر ایک کی خواہش رکھتا تھا کہ جھنڈا اسے دیا جاۓ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) کہاں ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلانے کا حکم دیا وہ آۓ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا تووہ اسی وقت ایسے ٹھیک ہوئيں کہ انہیں کچھ تھا ہیں نہیں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2942 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2406 ) ۔

جس طرح علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل ومناقب ہیں اسی طرح دوسرے صحابہ کرام کے بھی فضائل ومناقب ہیں ، ذيل میں ہم چند ایک صحابہ کرم رضي اللہ تعالی عنہ کےبعض فضائل ومناقب کا ذکر کریں گے :

ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشادفرماتے ہوۓ کہا :

بلاشبہ اللہ تعالی نے ایک بندے کو دنیا اوراپنے پاس جوکچھ ہے کا اختیار دیا تواس نے جواللہ تعالی کے پاس ہے اسے اختیار کرلیا ۔

یہ بات سن کرابوبکررضي اللہ تعالی عنہ رونے لگے ، میں نے دل میں کہا یہ بزرگ کیوں رو رہا ہے ، بات توصرف اتنی ہے کہ اللہ تعالی نے ایک بندے کویہ اختیاردیا ہے کہ وہ دنیا یا اللہ تعالی کے پاس جوکچھ ہے اسے اختیار کرلے تواس نے اللہ تعالی کے پاس جوکچھ تھا اسے اختیارکرلیا ۔

تووہ بندہ اورعبد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ، اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہم میں سب سے زيادہ علم والے تھے ۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر نہ روئيں ، بلاشبہ صحبت اوراپنے مال کے اعتبارسے سب سے زيادہ احسان کرنے والے ابوبکر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) ہیں ، اوراگرمیں کسی کواپنا خلییل ( جگری دوست ) بناتا توابوبکر رضي اللہ تعالی کوبناتا ، لیکن اسلامی اخوت اورمودت ہے ، مسجدمیں جتنے بھی دروازے کھلے ہوۓ ہیں انہیں بند کردیا جاۓ اورابوبکر ( رضي اللہ تعالی عنہ کا دروازہ کھلا رکھا جاۓ ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 466 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2382 ) ۔

ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی ھجرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے میں فضیلت ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اگر تم ان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہیں کروگے تواللہ تعالی نے ان کی مدداس وقت بھی کی تھی جب انہیں کافروں نے ( دیس سے ) نکال دیا تھا ، دومیں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ، تواللہ تعالی نے اپنی طرف سے ان پر سکون نازل فرمایا اوران کی ان لشکروں سے مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں ، اس نے کافروں کے کلمہ کوپست کردیا اوراللہ تعالی کا کلمہ ہی بلندوعزیز ہے اوراللہ تعالی ہی غالب حکمت والا ہے التوبۃ ( 40 ) ۔

یہ بھی ثابت ہے عمرو بن عاص رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذات السلاسل میں بھیجا وہ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :

لوگوں میں سے آپکوسب سے زيادہ محبت کس سے ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ ( رضي اللہ تعالی عنہا ) سے ، میں نے کہا کہ مردوں میں سے کون ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے والد ( ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ) سے ، میں کہا کہ اس کے بعد پھر کون ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمر بن الخطاب ( رضي اللہ تعالی عنہ ) اوربھی کئ آدمی گنے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3662 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2384 ) ۔

ابوبکررضي اللہ کے مناقب میں سے یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری ایام مرض الموت میں ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کونماز پڑھانے پرمامورکیا اورجس نے اس پراعتراض کیا اس کے ساتھ سختی سے پیش آۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ابوبکر( رضي اللہ تعالی عنہ ) کوحکم دو کہ وہ لوگوں کونمازپڑھائيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 683 ) صحیح مسلم حدیث نمبر( 418 ) ۔

ان کے فضائل میں یہ بھی ثابت ہے کہ انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکراورعمر اورعثمان رضي اللہ تعالی عنھم احد پہاڑ پر چڑھے توپہاڑہلنے لگا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اے احد ثابت رہ اورسکون اختیارکر اس لیے کہ تجھ پرنبی اورصدیق اور دوشھیدوں کے علاوہ کوئ نہیں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3675 ) ۔

اورعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے بھی بہت سے فضائل ومناقب ثابت ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( میں سویا ہواتھا تومیں نے دیکھا کہ مجھ پر لوگ پیش کیے جارہے ہيں اوران پرقمیصیں ہیں کسی کی قمیص اس کے سینہ تک اورکسی کی اس سے نیچے اورعمررضی اللہ تعالی عنہ پیش کیے گۓ تووہ اپنی قمیص کھینچ رہے تھے ، توصحابہ کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اس کی کیا تاویل کی ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اس کی تاویل دین کی ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 23 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2390 ) ۔

عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :

( میں سویا ہواتھا تومجھے دودھ کا پیالہ دیا گيا میں نے یہ دودھ اتنا پیا کہ اس کی تری مجھے اپنے ناخنوں سے نکلتی نظرآنے لگی پھر میں نے اپنا یہ بچا ہوا دودھ عمربن خطاب ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کو دے دیا ، صحابہ کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آّپ نے اس کی تاویل کیا فرمائ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا علم ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 82 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2391 ) ۔

اوران کے فضائل ومناقب میں یہ بھی ثابت ہے کہ :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہا کرتے تھے کہ :

( تم سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے جن پرالہام ہوتا اوران کی زبان پرسچ جاری ہوتا تھا اوراگران لوگوں میں سے کوئ میری امت میں ہے تووہ عمربن خطاب ہيں ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2398 ) ۔

اس کے علاوہ اوربھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے فضائل اورمناقب پردلائل موجود ہیں ، مگریہ کہ صحابہ کی ایک دوسرے پرفضيلت عقلا اورشرعا ثابت ہےاس میں کسی خواہش اور چاہت کا کوئ دخل نہيں بلکہ اس کا ثبوت شرع ہے جس طرح کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

آپ کا رب جوچاہتا ہے پیدا کرتا اورجسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ، ان میں سے کسی کوکوئ اختیارنہیں اللہ تعالی ہی کے لیے پاکی ہے وہ ہراس چيزسے بلند تر ہے جووہ شرک کرتے ہیں القصص ( 68 ) ۔

اب ہم ان شرعی دلائل کی طرف رجوع کرتے ہیں جن میں صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مراتب اورمنازل بیان ہوۓ ہیں :

عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کے درمیان امتیاز کیا کرتے تھے توہم ابوبکر کوسب سے افضل اوران کے بعد عمربن الخطاب پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3655 ) ۔

اورایک روایت میں ہے کہ :

ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کے برابر کسی کوبھی قرار نہیں دیتے تھے ان کے بعد عمر اوران کے بعد عثمان رضی اللہ تعالی عنہم پھرہم باقی صحابہ روسول کواسی طرح رہنے دیتے اوران میں ایک کودوسرے پرفضیلت نہیں دیتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3697 ) ۔

یہ وہ سب صحابہ کی شہادت ہے جسے عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ نقل کررہے ہیں ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ان کے بعد عمربن خطاب اوران کے بعد عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہم ا‌فضل ہیں ۔

اب ہم علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کی اپنی ہی گواہی کی طرف آتے ہیں کہ سب سے افضل کون تھا :

محمد بن حنفیہ جوکہ علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے بھی ہيں بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدلوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ تو انہوں کہا کہ ابوبکر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) میں کہا پھر کون ؟ توانہوں نے جواب میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کا نام لیا ، میں نے اس بات سے ڈرتے ہوۓ کہ کہيں اب عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کا ہی نہ کہہ دیں ،میں نے کہا پھرآپ ہیں ؟ توانہوں نے جواب دیا میں تومسلمانوں کا ایک عام سا آدمی ہوں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3671 ) ۔

علی رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : جوبھی میرے پاس لایا گیا اوراس نے مجھے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ پرفضيلت دی تومیں اسے حدافتراء لگاؤں گا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں :

علی رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بات تواتر کےساتھ ثابت ہے کہ وہ کوفہ کے منبر پرکہا کرتےتھے اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر اورافضل ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور ان کے بعد عمررضي اللہ تعالی عنہ ۔

علی رضي اللہ تعالی عنہ سے اسے روایت کرنے والوں کی تعداد اسی ( 80 ) سے بھی متجاوز ہے اورامام بخاری وغیرہ نے بھی اسے روایت کیا ہے ، اور یہی وجہ ہےکہ پہلے دور کے سب کے سب شیعہ اس پر متفق تھے کہ سب سے افضل ابوبکر اورعمر رضي اللہ تعالی عنھما ہيں ، جیسا کہ کئ ایک نے ذکر بھی کیا ہے ۔منھاج السنۃ ( 1 / 308 ) ۔

ابوجحیفہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ علی رضي اللہ تعالی منبرپر چڑھے اوراللہ تعالی کی حمدوثنا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرودوسلام کے بعد کہنے لگے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہتراورافضل ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ اوردوسرے نمبر پرعمررضی اللہ تعالی عنہ ہیں ، اورپھر یہ کہا کہ اللہ تبارک وتعالی جہاں پسندکرے بہتری اورخيررکھتا ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اسے اپنی مسند ( 839 ) میں روایت کیا ہے اورشیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کوقوی قرار دیا ہے ۔

یہ احادیث نبویہ اورآثارصحابہ رضي اللہ تعالی عنہ سب کے سب اھل سنت کے عقیدہ جس میں کسی قسم کا کوئ اختلاف نہیں پردلالت کرتے ہیں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سےصحابہ میں سب سے افضل ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ پھران کےبعد عمربن الخطاب رضي اللہ تعالی عنہ ہیں اللہ تعالی سب صحابہ پراپنی رحمتیں برساۓ ۔

رہی یہ بات کہ ابوبکراور عمررضي اللہ تعالی عنہما ہروقت علی رضي اللہ تعالی عنہ سے ہی مسائل پوچھتے رہتے تھے اورانہیں علم نہیں تھا ، تومطلقااس میں کوئ بھی اثرثابت نہیں ، بلکہ اس کا ثبوت ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کونمازپڑھائيں تواس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے مسائل میں عالم کے علاوہ کسی اورکوحکم نہیں دیا ۔

اوراس کا ثبوت ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے پہلے سال ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کوحج کا امیر بنایا تھا ، تواس مقام پربھی امیر وہی بن سکتا ہے جوان میں سے سب سے زيادہ عالم دین ہو ، بلکہ اس کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ نے بعض مسا‏ئل میں کچھ احادیث تو ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ سے سیکھی تھیں ۔

اسماء بن حکم فزاری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے علی رضي اللہ تعالی عنہ کویہ کہتے ہوۓ‎ سنا : میں ایک ایسا شخص ہوں کہ جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئ حدیث سنی اللہ تعالی نے اس حدیث سے مجھے جونفع دینا چاہا دیا ، اورجب صحابہ میں کوئ مجھے حدیث بیان کرتا تومیں اسے حلف کے بغیرتصدیق نہ کرتا جب وہ حلف اٹھاتا تومیں اسے کی تصدیق کرتا ، اوربلاشبہ ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے مجھے حدیث بیان کی اورابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے سچ بولا ، انہوں نے کہا میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا : جوشخص بھی کوئ گناہ کرنے کے بعد وضوء کرکے نمازپرھتا اور اللہ تعالی سے استغفارکرتا ہے تواللہ تعالی اسے معاف کردیتا ہے ، پھرانہوں نے یہ آيت تلاوت کی :

اوروہ لوگ جنہوں نے فحش کام اوربرائ کرلی یا اپنے آپ پرظلم کر بیٹھے تواللہ تعالی کویاد کیا اوراپنے گناہوں کی بخشش طلب کی آیت کے آخر تک پڑھا ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 406 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بلاشبہ اللہ تعالی نے عمر( رضي اللہ تعالی عنہ ) کے دل اورزبان پر حق جاری کیا ہوا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3682 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی ( 2908 ) صحیح کہا ہے ۔

اوراوپرسطورمیں یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے بارہ میں فرمایا :

( تم سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے جن پرالہام ہوتا اوران کی زبان پرسچ جاری ہوتا تھا اوراگران لوگوں میں سے کوئ میری امت میں ہے تووہ عمربن خطاب ہيں )

توحاصل یہ ہوا کہ اھل سنت والجماعت جس پر جمع ہیں اور ان کا اعتقاد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے ا فضل ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ اوران کے بعد عمر رضي اللہ تعالی عنہ ہیں ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

کسی بھی معتبرمسلمان عالم دین نے یہ نہیں کہا کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ ابوبکراورعمرضی اللہ تعالی عنہما دونوں یا پھر صرف اکیلے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ سے ہی افضل ہیں ، اوران کوافضل کہنے پرعملماء سنت کےاجماع کا دعوی کرنے والا سب سے جھوٹا اوراجھل الناس ہے ۔

بلکہ کئ ایک علماء نے تواس پراجماع نقل کیا ہے کہ ابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ علی رضي اللہ تعالی عنہ سے زيادہ علم رکھنے والے تھے ۔

اسے نقل کرنے والوں میں امام منصوربن عبدالجبارسمعانی المروذی جوکہ سلف میں سے اصحاب شافعی میں شمارہوتے ہیں نے اپنی کتاب " تقویۃ الادلۃ علی الامام " میں ذکر کیا ہے کہ :

علماءسنت کا اس پراجماع ہے کہ بلاشبہ ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ علی رضي اللہ تعالی عنہ سے زیادہ عالم تھے ، اورمجھے مشہور ائمہ میں سے کسی ایک کے بارہ میں بھی علم نہیں کہ انہوں اس میں کوئ جھگڑا یا اختلاف کیا ہو، اوریہ ہوبھی کیسے سکتا ہے اسے لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ فتوی اورحکم دیا کرتے اورروکتے اور فیصلے کیا کرتے اورخطبہ ارشاد فرمایا کرتے ۔

جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ لوگوں کودعوت اسلام دینے کے لیے نکلتے اورجب دونوں نے ھجرت کی ، اورجنگ حنین کے موقع پر اور اس کے علاوہ کی کئ ایک مواقع اس پرشاھد ہيں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش اورانہیں اس پرکچھ نہیں کہا اورجوکچھ وہ کہتے اس پررضا کا اظہار کیا اور یہ مرتبہ کسی اورصحابی کونہیں ملا ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیروں میں صحابہ کرام میں سے اھل علم اورفقہ اوراصحاب الراۓ شامل تھے ، اور ان میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر اور عمر رضي اللہ تعالی عنہما کومقدم کرتے تھے ، تویہی دوایسے صحابی تھے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں سب صحابہ کرام کے ہوتے ہوۓ ان پرکلام میں مقدم ہوتے ۔

مثلا جب جنگ بدر میں قیدیوں کا مسئلہ پیش آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا توسب سے پہلے بات کرنے والے ابوبکر اورعمررضي اللہ تعالی عنہما ہی تھے ، اسی طرح اوربھی کئ ایک واقعات ہیں ۔

صحیح مسلم میں ہے کہ نبی علیہ وسلم اورصحابہ کرام سفرمیں تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اگرقوم ابوبکراورعمررضي اللہ تعالی عنہ کی بات مانے تو کامیاب اورراہنمائ حاصل کرلیں گے ) ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے ثابت ہے کہ وہ کتاب اللہ میں سے یہ فتوی دیا کرتے اگر اس میں سےنہ ملتا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اوراگراس میں بھی نہ ملتا تو ابوبکراور عمررضي اللہ تعالی عنہما کے قول سے فتوی دیا کرتے تھے اورعثمان اورعلی رضی اللہ تعالی عنہ کے اقوال سے نہیں دیتے تھے ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما حبرالامہ اور اپنے دورمیں سب سے زيادہ علم رکھنے والے اورصحابہ کرام میں سب سے زیادہ فقیہ ہونے کے باوجود ابوبکراورعمر رضي اللہ تعالی عنہما کے قول کوباقی سب صحابہ کے اقوال پرمقدم رکھتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے :

( اے اللہ تعالی اسے دین کی سمجھ اور انہیں تفسیر کا علم دے ) ۔دیکھیں مجموع الفتاوی ( 4 / 398 ) ۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں :

الفصل فی الملل والنحل ( 4 / 212 ) بل ضللت ( ص 252 ) اور " الشیعۃ الامامیۃ الاثنی عشریۃ ( ص 120 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب