جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عورت نے كئى نذريں مانى اور بھول گئى

36445

تاریخ اشاعت : 02-09-2005

مشاہدات : 4158

سوال

ميں نے كئى ايك نذريں مانى اور اب مجھے ياد بھى نہيں ہيں، ان كا كفارہ كيا ہے، كيا ميں ہر نذر كے بدلے دس مسكينوں كو كھانا كھلا دوں؟
ليكن مجھے تو يہ ياد نہيں كہ كتنى نذريں مانى تھيں، اب كيا كرنا ہو گا ؟
اور ميں نے نماز كى نذريں بھى مانى تھيں جو مجھے ياد نہيں كيا ان كا بھى كفارہ ہے، يا كہ نماز ادا كرنا ضرورى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس نے اطاعت يعنى نماز يا روزہ يا صدقہ وغيرہ كى نذر مانى تو اسے يہ نذر پورى كرنا ہو گى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت كرنے كى نذر مانى وہ نذر پورى كرے، اور جس نے اللہ تعالى كى نافرمانى اور معصيت كى نذر مانى وہ اللہ كى نافرمان نہ كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6318 ).

اس نے يہ نذر چاہے كسى چيز كے حصول پر مانى ہو يا پھر مطلقا نذر ہو اس ميں كوئى فرق نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نيكى كى نذر كے بارہ ميں كہتے ہيں:

( يہ تين قسم كى ہے:

پہلى قسم: كسى نعمت كے حصول يا پھر كسى مشكل اور تكليف كے دور ہونے كے بدلے ميں اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ماننا: مثلا كوئى يہ كہے: اگر اللہ تعالى نے مجھے شفا دى تو ميرے ذمہ ايك ماہ كے روزے، تو جس چيز كى شرع ميں اصلا وجوب كى دليل ملتى ہو اس ميں اطاعت كرنا لازم ہو گى مثلا روزے، نماز، صدقہ، اور حج، اہل علم كا اجماع ہے كہ اس نذر كو پورا كرنا لازمى ہے )

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 13 / 622 ).

اور اگر آپ كو نماز يا روزہ يا صدقہ كى نذريں ياد ہيں، اور ان كى تعداد كا علم نہيں تو آپ كے ذمہ ياد كرنے كى كوشش كرنا ہے، اور پھر جو آپ كے گمان ميں غالب آتا ہو كہ اتنى ہونگى انہيں پورى كرليں تا كہ اس سے برى الذمہ ہو جائيں.

ليكن اگر آپ بھول چكى ہوں، يا پھر شك ہو كہ آيا نذر نماز ميں مانى تھى يا روزہ اور صدقہ كى، تو بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ آپ ان ميں سے ايك فعل سرانجام دينے ميں پورى كوشش اور جدوجھد كريں، اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ ہر نذر جس ميں آپ كو شك ہو كے بدلے قسم كا كفارہ دينا ضرورى ہے.

ديكھيں: مغنى المحتاج ( 6 / 234 ) غمز عيون البصائر ( 1 / 211 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 26 / 201 ).

اس سے آپ اپنے دوسرے سوال كا جواب معلوم كر سكتى ہيں، نماز كى نذر كو پورا كرنا ضرورى ہے، اور آپ اپنے غالب گمان كے مطابق عمل كريں تا كہ برى الذمہ ہو سكيں، اور اگر آپ كو شك ہو كہ مثلا بيس نمازيں ادا كرنے كى نذر مانى يا پچيس كى تو آپ پچيس ادا كريں.

اور يہ جاننا ضرورى ہے كہ نذر نہيں ماننى چاہيے كيونكہ بخارى اور مسلم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع كيا اور فرمايا:

" يہ كسى چيز كو دور نہيں كرتى بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6608 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1639 )

اور بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى سے بيان كيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نذر ابن آدم كو كوئى چيز نہيں ديتى جو ميں نے اس كے مقدر ميں نہ كى ہو، ليكن اسے وہى چيز ملتى ہے جو ميں نے اس كے مقدر ميں كى ہوتى ہے، ميں نذر كے ساتھ بخيل سے نكالتا ہوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6609 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب