جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

قربانی کھانے اورتقسیم کرنے کے بارہ میں

سوال

ہم قربانی کا کیا کریں ؟ کیا ہم اس کے تین حصے کریں یا چار ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

قربانی کرنے والے کے لیے قربانی کا گوشت کھانا اوراسے ھدیہ دینا اورصدقہ کرنا مشروع ہے اس کی دلیل مندرجہ ذیل آیت ہے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

( لھذا تم اس میں سے خود بھی کھاؤ اوربھوکے فقیروں کوبھی کھلاؤ )

اورایک دوسرے مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :

تم اس میں سے خود بھی کھاؤ اورمسکین سوال کرنےاور سوال نہ کرنے والے کوبھی کھلاؤ ، اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کردیا ہے تا کہ تم شکرادا کرو

القانع وہ محتاج ہے جوسوال کرے ، اورالمعتر وہ ہے جسے بغیر سوال کے عطیہ دیا جائے ۔

سلمہ بن اکوع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( کھاؤ اورکھلاؤ اورزخیرہ بھی کرو ) صحیح بخاری ۔

اطعام یعنی کھلانے میں غنی لوگوں کوھدیہ دینا اورفقراء مساکین پرصدقہ کرنا شامل ہے ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( کھاؤ اورزخیرہ کرو اورصدقہ بھی کرو ) صحیح مسلم ۔

علماء رحمہم اللہ تعالی نے کھانے اورلوگوں کوھدیہ دینے اورصدقہ کرنے کی مقدار کے بارہ میں اختلاف کیا ہے کہ اس کی مقدار کتنی ہے ، اس میں وسعت ہے اور مختار تویہی ہے کہ ایک تہائي کھائے اورایک تہائي ھدیہ کردے اورایک تہائي صدقہ کرے ۔

اورجس کا کھانا جائز ہے اس کا زخیرہ کرنا بھی جائز ہے چاہے وہ بہت دیر تک بھی موجود رہے لیکن شرط یہ ہے کہ جب اس کا کھانا مضرصحت نہ ہوجائے ، لیکن جب بھوک وافلاس عام ہوجائے توپھرتین یوم سے زيادہ زخیرہ کرنا جائزنہیں ہے ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے ۔

سلمہ بن اکوع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے بھی قربانی کی ہے اس کے گھر میں تین دن سے زيادہ قربانی کا گوشت نہيں رہنا چاہیے )

اس کے بعد والا سال آيا تولوگوں نے کہا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اس سال بھی پچھلے سال ہی طرح کریں ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( کھاؤ اورکھلاؤ اورزخيرہ کرو کیونکہ اس سال تولوگوں کوتنگی تھی لھذا میں نے یہ چاہا کہ تم ان کا اس تنگي میں تعاون کرو ) متفق علیہ ۔

نفلی یا واجب قربانی کا گوشت کھانے اورصدقہ کرنے میں کوئي فرق نہيں ، اورنہ ہی اس میں کوئي فرق ہے کہ وہ زندہ کی جانب سے ہویا فوت شدگان کی جانب سے یا پھر کسی وصیت کی وجہ سے کی گئي ہو ، کیونکہ جسے وصیت کی گئي ہے وہ وصیت کرنےوالے کے قائم مقام ہوتا ہے ، اور وصیت کرنے والا اس قربانی کا گوشت کھاتا بھی ہے اورھدیہ بھی دیتا ہے اورصدقہ بھی کرتا ہے اوراس لیے بھی کہ لوگوں میں یہ عادت ہے اورعرف میں جاری وساری ہے اورجوعرف میں جاری ہووہ لفظی منطوق کی طرح ہوتا ہے ۔

لیکن وکیل کواگر موکل ( یعنی جس نےاسے وکیل بنایا ہے ) کھانے اورھدیہ وصدقہ کرنے کی اجازت دیتا ہے یا پھر اس پرکوئي قرینہ یا عرف دلالت کرتا ہوتووکیل کے لیے ایسا کرنا صحیح ہے وگرنہ وہ اپنے موکل کے سپرد کردے وہ خود ہی تقسیم کرتا رہے گا ۔

قربانی میں سے کوئي بھی چيز بیچنی حرام ہے چاہے وہ گوشت ہویا کوئي اور چيز حتی کہ کھال اورانتڑیاں بھی نہیں بیچنی حرام ہیں ،اوراسی طرح قصائي کوبھی اس میں سے بطور معاوضہ کچھ نہيں دیا جائے گا کیونکہ یہ بھی فروخت کےمعنی میں آتا ہے ۔

لیکن جس شخص کوقربانی میں سے کوئي چيز بطور ھدیہ گوشت وغیرہ دیا گيا ہوتواس کے لیے اس میں تصرف کرنا جائز ہے چاہے وہ وہ بیچے یا کوئي اورتصرف کرلے لیکن وہ اس شخص کونہيں بیچ سکتا جس نے اسے ھدیہ دیا ہے یا اس پرصدقہ کیا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب