جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

كھجوروں كى زكاۃ

36778

تاریخ اشاعت : 11-02-2006

مشاہدات : 6826

سوال

ميرا ايك كھجوروں كا باغ ہے، ميں كھجوريں اتار كر ماركيٹ ميں فروخت كرتا ہوں، اس ميں زكاۃ كا تناسب كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

كھجوروں ميں زكاۃ كے وجوب پر علماء كرام كا اجماع ہے، اور اس ميں اس وقت تك زكاۃ نہيں جب تك كہ وہ نصاب تك نہ پہنچ جائيں، اس كا نصاب پانچ وسق ہے، اور ايك وسق ساٹھ صاع اور ايك صاع چار مد اور ايك مد ايك عام آدمى كى دونوں ہتھيليوں كے برابر ہوتا ہے.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 4 / 154 ).

اس كى دليل مسلم شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابو سعيد خدري رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" غلہ اور كھجور ميں اس وقت تك صدقہ نہيں جب تك كہ وہ پانچ وسق تك نہ پہنچ جائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 979 ).

دوم:

كھيتى اور پھلوں كو سيراب كا طريقہ مختلف ہونے كى بنا پر اس كى مقدار زكاۃ بھى مختلف ہوتى ہے.

اگر تو سيراب كرنے ميں اخراجات وغيرہ نہ ہوتے ہوں مثلا بارش يا چشمہ كے ذريعہ زمين سيراب كى جاتى ہو، يا زمين پانى كے قريب ہو اور وہ اپنى رگوں كے ذريعہ خود ہى پانى پى ليتى ہو اسے سيراب كرنے كى ضرورت ہى نہ ہو تو اس ميں عشر ہو گى.

اور اگر اسے سيراب كرنے ميں اخراجات كرنا پڑيں مثلا اگر پانى پہنچانے كے ليے موٹر وغيرہ كى ضرورت ہو تو اس ميں نصف عشر ہو گى.

آئمہ اربعہ كا قول يہى ہے، بلكہ ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ہميں اس ميں كوئى اختلاف معلوم نہيں" اھـ

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 4 / 164 - 166 ).

اخراجات كا معنى يہ ہے كہ اس زمين تك پانى پہنچانے كے ليے كسى آلہ اور مشين كى ضرورت ہو.

ديكھيں: المغنى ( 4 / 166 ).

اس كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس زمين كو آسمان اور چشموں كے ذريعہ سيراب كيا جائے يا وہ زمين زمين بغير سيراب كيے خود ہى پانى چوس لے تو اس ميں عشر ہے، اور جسے پانى نكال كر سيراب كيا جائے اس ميں نصف عشر ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1438 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" عثريا" خطابى رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے: يہ وہ زمين ہے جو بغير سيراب كيے خود ہى اپنى رگوں كے ذريعہ پانى چوس لے.

" بالنضح " يعنى رہٹ وغيرہ چلا كر، يہ مسلم كى روايت ہے، اور اس سے مراد پانى پلانے والے اونٹ ہيں، اور اونٹ تو بطور مثال ذكر كيا گيا ہے، وگرنہ گائے اور بيل وغيرہ بھى اسى كے حكم ميں ہيں. اھـ

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جو زمين بارش اور نہر اور چشموں كے ذريعہ سيراب كى جائے اس سے حاصل ہونے والے غلہ اور دانوں، مثلا كھجور اور منقہ اور گندم، جو وغيرہ ميں عشر ہے، اور جو موٹروں اور پمپوں وغيرہ كے ساتھ سيراب كى جائے اس ميں نصف عشر ہے" . اھـ

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 14 / 74 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" بغير كسى اخراجات سے سيراب كى جانے والى زمين ميں عشر واجب ہوتى ہے، مثلا بارش يا چشموں اور جو زمين خود ہى پانى چوس لے، اور جس زمين كو سيراب كرنے كے ليے اخراجات كيے جائيں اور وہ موٹروں اور پمپوں كے ذريعہ سيراب كى جائے تو اس ميں نصف عشر واجب ہو گى.

اور اگر نصف سال بغير اخراجات اور نصف سال اخراجات كے ذريعہ سيراب كى جاتى ہو تو اس ميں عشر كا دو تہائى حصہ ہو گا، اور اگر دونوں طريقوں ميں سے ايك طريقہ كے ساتھ زيادہ سيراب كى جاتى ہو تو وہ طريقہ معتبر شمار ہو گا جس سے زيادہ سيراب كى جاتى ہو، اور اگر اسے مقدار معلوم نہيں تو اس ميں عشر واجب ہو گى" اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 176 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب