جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا عيد كے روز طواف افاضہ نہ كرنے سے دوبارہ احرام كى حالت ہو جاتى ہے ؟

36833

تاریخ اشاعت : 22-12-2006

مشاہدات : 4287

سوال

ميں نے سنا ہے كہ اگر عيد كے روز طواف افاضہ نہ كيا جائے تو وہ طواف كرنے تك احرام كى حالت ميں رہےگا، كيا يہ كلام صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس كے متعلق ام سلمہ كى ايك حديث پيش كى جاتى ہے، اس مسئلہ كے متعلق فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

" ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث " جس نے عيد كے روز غروب آفتاب سے قبل طواف افاضہ نہ كيا تو وہ احرام كى حالت ميں پلٹ جاتا ہے "

كے متعلق آپ كے سوال كے جواب ميں يہ معلومات ديتا ہوں كہ:

يہ حديث ضعيف ہے، اس بطور حجت پيش نہيں كيا جا سكتا، اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كئى ايك وجوہات كى بنا پر ثابت نہيں ہے:

پہلى وجہ:

سند كے اعتبار سے، امام احمد، اور ابو داود اور ابن خزيمہ كے ہاں اس كى سند كا مدار محمد بن اسحاق مشہور سيرت نگار پر ہے، وہ كہتے ہيں:

ہميں ابو عبيدہ بن عبد اللہ بن زمعہ نے اپنے والد اور اپنى والدہ سے بتايا وہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتے ہيں اس روايت ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم اس بيت اللہ كا طواف كرنے سے قبل شام كر لو تو تم دوبارہ جمرات كو كنكرياں مارنے سے قبل والى احرام كى حالت ميں چلے جاؤ گے حتى كہ طواف كر لو "

ابن اسحاق جب منفرد روايت بيان كرے تو اس ميں كچھ نكارت سى پائى جاتى ہے، امام احمد رحمہ اللہ سے ابن اسحاق كى منفرد حديث كے متعلق دريافت كيا گيا كيا اسے قبول كيا جائيگا؟ تو انہوں نے جواب ديا اللہ كى قسم نہيں.

اور محمد بن يحيي كہتے ہيں: وہ حسن الحديث ہے، اور عندہ غرائب ، اور دار قطنى كا كہنا ہے: اس كے بارہ ميں آئمہ كا اختلاف ہے، اور ليس بحجۃ، و انما يعتبر بہ، كہ وحجت نہيں بلكہ اس كا اعتبار كيا جائيگا. انتہى

ديكھيں: تھذيب ( 9 / 39 - 46 ).

لگتا ہے يہ حديث اس كى منفرد منكرہ ميں سے ہے.

اور رہا ابو عبيدہ بن عبد اللہ بن زمعہ كا مسئلہ تو اس كے متعلق تقريب التھذيب ميں ہے: مقبول من الثالثۃ.

ديكھيں: التقريب ( 2 / 448 ).

اور محلى ابن حزم ميں اس كے متعلق ہے كہ:

" وہ احاديث نقل كرنے ميں معروف نہيں، اور نہ ہى حفظ ميں معروف ہے، اور اگر حديث ام سلمہ صحيح ہوتى تو ہم اس كا ہى كہتے " انتہى.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 7 / 142 ).

اور امام طحاوى رحمہ اللہ نے " شرح معانى الآثار " ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا جيسى ہى عبد اللہ بن لھيعۃ كے طريق سے حديث بيان كى ہے.

ديكھيں: شرح معانى الآثار ( 2 / 228 ).

ابن لھيعۃ كے متعلق تقريب ميں ہے: يہ صدوق ہے، اور ساتويں طبقہ سے تعلق ركھتا ہے، اپنى كتابيں جل جانے كے بعد اس كو اختلاط كا عارضہ لاحق ہوگيا تھا، اور اس سے ابن مبارك اور ابن وھب كى روايات دوسروں كى روايات سے زيادہ عادل ہيں " انتہى.

ديكھيں: التقريب التھذيب ( 1 / 144 ).

ميں كہتا ہوں: بعض حفاظ كرام نے تو اسے مطلقا ضعيف كہا ہے، اور بعض نے اسے اس وقت ضعيف كہا ہے جب عبادلہ ( يعنى جب عبد اللہ نام ) كے علاوہ كسى اور راوي سے روايت كرے.

اس ليے جب اس حديث كى سند يہ ہو اور اس سند كے علاوہ كسى اور سند سے روايت نہ كريں تو ان كى روايت ميں مقال و نظر ہے، اور حديث نقل كرنے والے كبار آئمہ اور حفاظ كرام جو بخارى اور مسلم وغيرہ كے رجال ميں شامل ہوتے ہيں انہوں نے اس سے اعراض برتا ہے، باوجود اس كے كہ اس سے بہت زيادہ روايات متوفر و منقول ہيں، يہ اس كى دليل ہے كہ اس كى كوئى اصل نہيں.

دوسرى وجہ:

متن كے اعتبار سے، چنانچہ اس كا متن شاذ ہے، كيونكہ صحيحين وغيرہ كى احاديث ميں يہ ظاہر طور پر بيان ہوا ہے كہ بيت اللہ كا طواف كرنے سے قبل ہى تحلل اول ہو جاتا ہے، اس ميں غروب آفتاب سے قبل كى كوئى قيد نہيں، مثلا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا فرمان ہے:

" ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بيت اللہ كا طواف كرنے سے قبل حلال ہونے پر انہيں خوشبو لگايا كرتى تھى "

اور يہ ممكن ہى نہيں اس كو اس طرح كى شاذ حديث كے ساتھ مقيد كيا جاسكے، اسى ليے امام طحاوى رحمہ اللہ نے شرح معانى الآثار ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ذكر كرنے كے بعد كہا ہے كہ:

" چنانچہ اس كا ابن لھيعہ كى حديث سے تعارض ہوتا ہے جس كو ہم نے اس باب كے شروع ميں ذكر كيا ہے، ليكن يہ حديث اولى ہے، كيونكہ اس كے ساتھ تواتر ہے روايت كى صحت بھى وہ جو اس كے علاوہ كسى اور ميں نہيں " انتہى.

ديكھيں: معانى الآثار ( 2 / 229 ).

تيسرى وجہ:

اس پر عمل كرنے كے اعتبار سے:

جب اس پر امت نے عمل نہيں كيا نہ تو آئمہ نے اور نہ ہى علماء كرام نے، ليكن صحابہ كرام كے بعد كچھ افراد نے اور وہ بھى اس حالت ميں جب ان نے صحيح منقول ہو، چنانچہ امام طبرى اپنى كتاب " القرى لقاصدى ام القرى " ميں حديث بيان كرتے وقت كہتے ہيں:

" اور يہ وہ حكم ہے جس كے متعلق مجھے علم نہيں كہ كسى نے اس كا كہا ہو " انتہى.

ديكھيں: القرى لقاصدى ام القرى صفحہ نمبر ( 472 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ نے " شرح المھذب " ميں امام بيھقى سے ان كا يہ قول نقل كيا ہے:

" ميرے علم ميں تو نہيں كہ فقھاء ميں سے كسى نے يہ كہا ہو، ميں ( امام نووى ) كہتا ہوں تو يہ منسوخ ہے، اس كے منسوخ ہونے پر اجماع دلالت كرتا ہے، كيونكہ نہ تو اجماع منسوخ كرتا ہے، اور نہ ہى منسوخ ہوتا ہے، ليكن ناسخ پر دلالت كرتا ہے " انتہى

ديكھيں: شرح المھذب ( 8 / 165 ).

چنانچہ امام بيھقى نے كسى مخالف كا علم نہ ہونے ميں امام نووى رحمہ اللہ موافقت كى ہے، بلكہ اسے اجماع قرار ديا ہے، جو اس حديث كے نسخ ہونے پر دلالت كرتا ہے، يعنى اس ليے كہ امت نے اس پر عمل نہيں كيا ليكن امام نووى كى كلام ميں نظر ہے كيونكہ نسخ كا دعوى منسوخ ثابت ہونے كا متقاضى ہے، اور حديث تو اصلا ثابت ہى نہيں حتى كہ اس كے نسخ ہونے كا دعوى كيا جائے.

يہ اور اس كے علاوہ بعض لوگوں نے عروہ بن زبير سے بھى روايت كيا ہے جو كہ سات فقھاء ميں سے ايك فقيہ ہيں، ہو سكتا ہے وہ اس ان نے ان كے قول سے مفہوم ليا جو جوامام طبرى نے اپنى كتاب " القرى " ميں نقل كيا ہے كہ:

عرفہ كے بعد جو شخص طواف نہ كرے اس كے ليے خوشبو لگانى حلال نہيں، چاہے اس نے بال چھوٹے بھى كروا ليے ہوں "

ديكھيں: القرى لقاصدى ام القرى ( 470 ).

اسے سعيد بن منصور نے روايت كيا ہے.

ميں نے يہ اس ليے بات كى ہے كہ يہ تو بہت بعيد كى بات ہے كہ عروہ بن زبير نے يہ قول ام سلمہ رضى اللہ عنہا كى حديث كے مقتضى كے مطابق كہا ہو، اور پھر ان كا يہ قول طبرى اور بيھقى وغيرہ پر مخفى رہا ہو.

اس بنا پر عروہ كے قول كا معنى يہ ہوگا: اس كے ليے بيت اللہ كا طواف كرنے سے قبل خوشبو حلال نہيں، اور يہ قول مشہور ہے، اس كے متعلق نزاع اور خلاف مشہور ہے، اور اس قول اور ام سلمہ كى حديث ميں فرق بلكہ صريح فرق ہے كہ:

ام سلمہ رضى اللہ عنہا كى حديث اس پر دلالت كرتى ہے كہ بيت اللہ كا طواف كرنے سے قبل وہ حلال ہو جائيگا، ليكن اگر اس نے عيد كے روز غروب آفتاب تك بيت اللہ كا طواف نہ كيا تو وہ دوبارہ احرام كى حالت ميں پلٹ آئيگا.

ليكن جو امام طبرى رحمہ اللہ نے عروہ سے نقل كيا ہے وہ خوشبو كے استعمال كرنے كى حلت طواف پر موقوف ہے، اس ليے اس قول اور اس ميں فرق ظاہر ہے.

چوتھى وجہ:

اس كا مقتضا شرعى اصول و قواعد كے مقتضا مرعيہ كے خلاف ہے.

اس كا تقاضا ہے كہ: عمل كرنے والا شخص اپنى عبادت سے حلال ہو جائے تو وہ اس وقت تك عبادت ميں واپس نہيں پلٹ سكتا جب تك وہ اس كے ليے نئى نيت نہ كرلے، اور يہ اس حديث كے ضعيف ہونے كا ايك اور ثبوت ہے، اور اگر ثابت ہوتى تو يہ قول كہنا واجب ہوتا، اور پھر ہر قاعدہ كى كچھ استثناء صورتيں ہوتى ہيں.

اس كے متعلق جلد بازى ميں اللہ كى مدد سے يہى سطور لكھى جا سكى ہيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو صحيح راہ كى توفيق عطا فرمائے، اور جس پر كتاب و سنت دلالت كرتى ہے اس پر عمل كرنے كى توفيق دے، يقينا اللہ تعالى اس پر قادر ہے" انتہى.

يہ سطور اس پملفٹ سے اخذ كردہ ہيں جو شيخ رحمہ اللہ نے اپنے ہاتھ كے خط سے لكھى ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب