جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

صرف تجارت كے ليے قيمتى پتھروں ميں زكاۃ ہو گى وگرنہ نہيں

40210

تاریخ اشاعت : 05-04-2006

مشاہدات : 6475

سوال

قيمتى پتھروں مثلا الماس وغيرہ كى زكاۃ كى مقدار كيا ہے، حالانكہ يہ سونا نہيں ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جمہور علماء كرام كے نزديك قميتى پتھروں ميں زكاۃ نہيں ہے، ليكن اگر يہ پتھر بطور تجارت ركھے جائيں تو ان ميں زكاۃ ہو گى، جمہور علماء كے ہاں سونے اور چاندى كے علاوہ زكاۃ نہيں.

امام مالك رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جواہرات اور لؤلؤ اور عنبر ميں زكاۃ نہيں ہے. اھـ

ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 34 ).

اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كتاب الام ميں كہتے ہيں:

" عورتيں جو زيور استعمال كرتى ہيں، يا انہيں جمع كرتى ہيں، يا مرد جو لؤلؤ اور زبرجد اور مرجان اور سمندر كا زيور وغيرہ ركھتے ہيں ان ميں زكاۃ نہيں، اور صرف سونا اور چاندى ميں زكاۃ ہے. اھـ

سمندر كا زيور ہر وہ چيز ہے جو سمندر سے نكلے، اور ورق چاندى كو كہتے ہيں.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" سونےاور چاندى كے جواہرات كے علاوہ كسى ميں زكاۃ نہيں، مثلا ياقوت، فيروزج، مرجان، زمرد، زبرجد، لوہا، تانبا، اور شيشہ، چاہے اسے بہت اچھے طريقہ سے بنايا جائے، اور اس كى قيمت كتنى بھى زيادہ ہو جائے، اور كستورى اور عنبر ميں بھى زكاۃ نہيں ہے.

ہمارے ہاں اس ميں كوئى بھى اختلاف نہيں ہے، اور سلف وغيرہ ميں سے جمہور علماء كرام كا بھى يہى كہنا ہے، اور ابن منذر وغيرہ نے حسن بصرى اور عمر بن عبد العزيز اور امام زھرى اور ابو يوسف اور اسحاق بن راہويہ سے بيان كيا ہے كہ ان كا قول ہے:

" عنبر ميں خمس واجب ہو گى.

زہرى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور اسى طرح لؤلؤ بھى، اور ہمارے اصحاب نے عبد اللہ بن حسن عنبرى سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے كہا:

مچھلى كے علاوہ سمندر سے نكلنے والى ہر چيز ميں خمس واجب ہے، اور عنبرى وغيرہ نے امام احمد سے دو روايتيں بيان كى ہيں:

پہلى روايت جمہور كے مذہب جيسى ہے.

اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: انہوں نے جو كچھ ہم نے ذكر كيا ہے جب وہ نصاب كى قيمت كو پہنچے تو اس ميں زكاۃ واجب كى ہے، حتى كہ مچھلى ميں بھى. ہمارى دليل يہ ہے:

1 - اصل ميں زكاۃ نہيں ہے، ليكن اس ميں زكاۃ ہو گى جس كے بارہ ميں شريعت سے زكاۃ ثابت ہے.

2 - ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" عنبر ميں زكاۃ نہيں، يہ تو ايسى چيز ہے جسے سمندر نے باہر پھينك ديا ہے"

يہ جو ہم نے ذكر كيا ہے وہ مسئلہ كى دليل ميں معتمد ہے، اور جو حديث عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ عن النبى صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان كى جاتى ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" پتھر ميں زكاۃ نہيں "

يہ بہت ہى زيادہ ضعيف ہے، اسے امام بيھقى نے روايت كيا ہے اور اس كے ضعف كو بھى بيان كيا ہے. اھـ

فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

اس وقت بہت سے مجوہرات ماركيٹ ميں تيار ہو رہے ہيں مثلا الماس اور پلاٹين وغيرہ جو بطور زيور استعمال ہوتے ہيں، تو كيا اس ميں زكاۃ ہے؟

اور اگر يہ استعمال اور بطور زينت برتنوں كى شكل ميں ہوں، ہميں تفصيل مہيا كريں، اللہ تعالى آپ كو اجرعظيم عطا فرمائے.

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اگر تو يہ سونے اور چاندى سے تيار كردہ ہيں تو ان ميں نصاب مكمل ہونے اور سال پورا ہونے كے بعد زكاۃ واجب ہے، چاہے يہ پہننے كے ليے ہو يا عاريتا ہو، علماء كرام كا يہ صحيح قول يہى ہے، كيونكہ اس ميں صحيح احاديث وارد ہيں.

ليكن اگر يہ سونے اور چاندى سے تيار كردہ نہيں بلكہ الماس اور عقيق وغيرہ سے تيار كردہ ہيں تو اس ميں زكاۃ نہيں ہے، ليكن اگر يہ تجارت كے ليے ہوں تو پھر يہ تجارتى سامان ميں شامل ہونگے اور دوسرے تجارتى سامان كى طرح اس ميں بھى زكاۃ واجب ہو گى.

سونے اور چاندى كے برتن ركھنے جائز نہيں ہيں، چاہے وہ بطور زينت اور زيبائش ہى ركھے ہوں، كيونكہ انہيں ركھنا كھانے پينے ميں استعمال كرنے كا وسيلہ ہے، اور صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم سونے اور چاندى كے برتنوں ميں نہ پيئو، اور اس كى پليٹوں ميں نہ كھاؤ كيونكہ يہ دنيا ميں ان ( يعنى كفار ) كے ليے ہيں، اور آخرت ميں تمہارے ليے"

صحيح بخارى اور صحيح مسلم.

اور جو شخص بھى ايسے برتن ركھے اس پر توبہ كے ساتھ ساتھ ان برتنوں كى زكاۃ بھى ہے، اور اسے چاہے كہ وہ انہيں دوسرے ايسے برتنوں سے تبديل كر لے جو اس سے مشابہ نہ ہوں، مثلا زيورات وغيرہ بنا لے. اھـ

مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 121 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:

سونے كے علاوہ دوسرے جواہرات مثلا الماس ميں زكاۃ نہيں ہے، ليكن اگر وہ تجارتى بنياد پر ركھے جائيں تو اس ميں زكاۃ ہو گى. اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 124 ).

فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

الماس وغيرہ كے جواہرات ركھنے كا حكم كيا ہے ؟

اور كيا اس ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے ؟

اور كيا الماس كو سونے اور چاندى كا حكم ديا جائے گا ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

استعمال كے ليے جواہرات ايك شرط كے ساتھ ركھنے جائز ہيں، كہ وہ اسراف اور فضول خرچى كى حد تك نہ پہنچيں، اور اگر وہ فضول خرچى اور اسراف كى حد تك پہنچ جائيں تو اسراف كى حرمت كے عمومى قاعدہ كے تحت ممنوع ہونگے، جو كہ حد سے تجاوز ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم اسراف و فضول خرچى نہ كرو يقينا اللہ تعالى اسراف اور فضول خرچى پسند نہيں فرماتا الانعام ( 141 ).

اور جب يہ الماس وغيرہ كے جواہرات اسراف كى حد تك نہ جائيں تو يہ جائز ہيں، اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كا عموم ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

وہى ہے جس نے زمين ميں جو كچھ ہے وہ تمہارے ليے پيدا فرمايا ہے البقرۃ ( 29 ).

اور اس ميں زكاۃ نہيں ليكن جب وہ تجارت كے ليے ہوں تو پھر اس ميں زكاۃ ہو گى، كيونكہ اس وقت يہ سارى تجارتى اموال كى طرح ہونگے. اھـ

ديكھيں: فتاوى الزكاۃ صفحہ نمبر ( 97 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب