منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

والد اپنے بيٹے كا نفقہ كب تك برداشت كريگا ؟

42220

تاریخ اشاعت : 06-09-2013

مشاہدات : 4954

سوال

ميرى بہن كا بيٹا اپنے باپ كے ساتھ رہتا تھا بعد ميں ہمارے ساتھ رہنے لگا، ميں نے اس شرط پر اسے اپنے ساتھ ركھنا قبول كيا كہ وہ اس كے اخراجات كى مد ميں ماہانہ پانچ سو ريال ديا كريگا.
ليكن كچھ عرصہ بعد اس نے يہ مبلغ دينا بند كر ديا، اور كہنے لگا كہ اس كا بيٹا اس كى خدمت نہيں كرتا، اور اس سے دور رہتا ہے اس ليے اس كے اخراجات بھى آپ كے ذمہ ہيں، كھانا پينا اور اس كى شادى بياہ اور لباس گاڑى وغيرہ سب آپ كے ذمہ ہيں....
بلكہ اس كے باپ نے تو كمپنى كے كھاتے سے علاج معالجہ كرانے كى فائل بھى دينے سے انكار كر ديا، حالانكہ ملازمت كى بنا پر كمپنى كى جانب سے مفت علاج معالجہ كى سہولت دى گئى ہے.
ہمارا سوال يہ ہے كہ آيا ہميں شرعى حق حاصل ہے كہ ہم اس كے سولہ سالہ بيٹے كے اخراجات طلب كر سكيں، كيونكہ بچہ ابھى ميٹرك كا طالب علم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آدمى پر واجب ہے كہ اگر اس كے والدين اور اولاد محتاج اور ضرورتمند ہوں تو وہ ان پر خرچ كرے اور ان كا نان و نفقہ برداشت كرے.

خرقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" آدمى كے والدين اور اس كى اولاد اگر فقراء و محتاج ہوں اور اس كے پاس مال ہو تو اسے ان كے اخراجات برداشت كرنے پر مجبور كيا جائيگا "

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" والدين اور اولاد كے نان و نفقہ كے وجوب كى دليل كتاب و سنت اور اجماع ہے؛ كتاب اللہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اگر وہ عورتيں تمہارے ليے ( تمہارے بچے كو ) دودھ پلائيں تو تم انہيں ان كى اجرت دو .

يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے رضاعت كى اجرت بچے كے والد پر واجب كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور جس كا بچہ ہے اس كے ذمہ ان عورتوں كى روزى اور ان كا لباس ہے اچھے طريقہ كے ساتھ .

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اور تيرا پروردگار يہ فيصلہ كر چكا ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت مت كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ .

ضرورت كے وقت والدين كا خرچ برداشت كرنا اور ان كے اخراجات پورے كرنا بھى ان كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے.

سنت نبويہ كے دلائل ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ہند رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ فرمان ہے:

" تم اتنا كچھ لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارے بچے كو اچھے طريقہ سے كافى ہو " متفق عليہ.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" آدمى كے ليے سب سے پاكيزہ وہ ہے جو وہ اپنى كمائى سے كھاتا ہے، اور اس كى اولاد اس كى كمائى ميں سے ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3528 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اجماع كى دليل درج ذيل ہے:

ابن منذر رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ:

" اہل علم كا اجماع ہے كہ فقير و محتاج والدين جن كى كوئى آمدنى و كمائى نہ ہو اور ان كے پاس مال بھى نہ ہو ان كے اخراجات و خرچ ان كے بيٹے پر واجب ہيں.

جن سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے وہ سب اہل علم اس پر متفق ہيں كہ آدمى پر اس كى سارى اولاد جن كے پاس مال نہ ہو كے اخراجات واجب ہيں "

ديكھيں: المغنى ( 8 / 169 - 170 ).

والد پر جو نفقہ واجب ہے اس كى كچھ شروط ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

بيٹا مال كا محتاج اور ضرورتمند ہو.

اور وہ چھوٹى عمر يا بيمارى وغيرہ كى بنا پر كمائى كرنے سے عاجز ہو.

اور والد اپنے بيٹے پر خرچ كرنے كى استطاعت ركھتا ہو.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نفقہ واجب ہونے كے ليے تين شرطيں ہيں:

پہلى شرط:

وہ فقراء و محتاج ہوں، اور ان كے پاس مال نہ ہو اور نہ ہى آمدنى و كمائى ہو جس كى بنا پر وہ كسى دوسرے كے خرچ سے مستغنى ہوں.

اگر ان كے پاس مال ہو، يا وہ كمائى و آمدنى ميں كسى دوسرے كے محتاج نہ ہو تو پھر ان كا نفقہ نہيں ہوگا؛ كيونكہ يہ بطور دلجوئى واجب ہوتا ہے، اور مالدار كے ليے دلجوئى نہيں ہوتى.

دوسرى شرط:

جس پر نفقہ واجب ہو رہا ہے اس كے پاس خرچ كرنے كے ليے مال اپنے اخراجات سے زائد ہو، يعنى يا تو مال زائد ہو يا پھر كمائى و آمدنى زائد ہو، ليكن اگر اس كے پاس كچھ زائد نہ ہو تو پھر اس پر كچھ واجب نہيں ہوگا.

اس كى دليل جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تم ميں سے كوئى شخص فقير و تنگ دست ہو تو وہ اپنے آپ سے شروع كرے، اگر كچھ بچ جائے تو پھر وہ اپنے اہل و عيال پر خرچ كرے، اور اگر اس سے بھى كچھ بچ جائے تو پھر وہ اپنے قريبى رشتہ دار پر خرچ كرے "

ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:

" تم اپنے آپ سے شروع كرو، اور پھر ان سے جو تمہارى عيالدارى ميں ہيں "

يہ حديث صحيح ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس ايك دينار ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم اسے اپنے آپ پر صدقہ كرو.

اس شخص نے عرض كيا: ميرے پاس ايك اور دينار ہے .

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم اسے اپنے بچے پر صدقہ كرو.

اس شخص نے عرض كيا: ميرے پاس ايك اور دينار ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اسے اپنى بيوى پر صدقہ كرو.

وہ شخص كہنے لگا: ميرے پاس ايك اور دينار ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے تم اپنے خادم پر صدقہ كرو.

اس شخص نے عرض كيا: ميرے پاس ايك اور دينار بھى ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم زيادہ بہتر جانتے ہو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1691 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح سنن ابو داود ميں حسن قرار ديا ہے.

اور اس ليے بھى كہ يہ دلجوئى ہے، چنانچہ يہ زكاۃ كى طرح محتاج پر واجب نہيں ہوگى.

تيسرى شرط:

خرچ كرنے والا وارث ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وارث پر بھى اسى طرح ہے .

اور اس ليے بھى كہ ايك دوسرے كا وارث بننے والے آپس ميں رشتہ دار ہوتے ہيں، جس كا تقاضہ ہے كہ وارث شخص دوسرے لوگوں كى بنسبت اپنے وارث بننے والے كے مال كا زيادہ حقدار ہے، اس ليے دوسروں كى بجائے نفقہ برداشت كرنے كے ساتھ صلہ رحمى كرنا خاص كر واجب ہوگا.

ديكھيں: المغنى ( 8 / 168 - 169 ).

چنانچہ باپ پر واجب ہے كہ وہ محتاج اور ضرورتمند بيٹے كے اخراجات اس وقت تك برداشت كرے جب تك وہ اس سے مستغنى نہيں ہو جاتا، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اگر بيٹا شادى كا محتاج ہو تو باپ پر اس كى شادى كے اخراجات كرنا واجب ہوگا

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ: اگر باپ كے ذمہ بيٹے كا نفقہ ہو اور بيٹا عفت و عصمت كا محتاج ہو تو باپ كو اپنے بيٹے كى عفت و عصمت بچانا ہوگى، بعض شافعيہ بھى اسى كے قائل ہيں.

ديكھيں: المغنى ( 8 / 172 ).

شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" جيسے ہى بيٹا اپنے باپ سے مستغنى ہو جائے تو بيٹے كا باپ سے حق ختم ہو جاتا ہے، يعنى جب وہ بڑا ہو كر اپنے ليے كمائى كرنے لگے اور اپنى آمدنى كى بنا پر كسى دوسرے كا محتاج نہ رہے تو نفقہ ميں اس كے باپ كا حق ختم ہو جائيگا.

ليكن جب تك وہ چھوٹا بچہ ہو، يا پھر بڑا تو ہو جائے ليكن كمائى نہ كر سكتا ہو تو پھر اس كے والد كا حق ہے كہ وہ بيٹے كے مستغنى ہونے تك نفقہ برداشت كرے، كيونكہ قرابت و رشتہ دارى كى بنا پر يہ واجب ہے.

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 240 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

والد كو اپنى رعايا كے بارہ ميں اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كرنا چاہيے، اگر وہ اپنے بيٹے كى تعليم و علاج معالجہ وغيرہ امور كى استطاعت ركھتا ہے تو اسے اس ميں كوتاہى نہيں كرنا چاہيے، بلكہ بيٹے كى ضروريات پورى كرے.

ہمارى آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ شرعى عدالت ميں مقدمہ لے جانے سے قبل اصلاح پسند افراد كے ذريعہ سے باپ كو وعظ و نصيحت كريں، اور باپ بيٹے كے مابين اصلاح كى كوشش كريں.

كيونكہ راضى و خوشى اخراجات برداشت كرنا اور مقدمات سے دور رہنا باپ كا اپنے بيٹے پر راضى ہونا اور سليم قلب ہونے كے زيادہ قريب ہے.

اسى طرح ہم بيٹے كو بھى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ كوئى ملازمت يا كام تلاش كر كے اپنے باپ كے نفقہ سے مستغنى ہو اور خاص كر جب بيٹا جوان ہو چكا ہے، اور اسے تعليم اور ملازمت و كام كاج سب كو جمع كرنے كى كوشش كرنى چاہيے كيونكہ يہ كوئى مشكل كام نہيں بلكہ بہت آسان ہے، اور پہلے بھى بہت سارے لوگ ايسا كرتے رہے، جو كوئى اللہ سے غنا چاہتا ہے اللہ تعالى اسے غنى كر ديتا ہے.

ليكن اگر ايسا نہ ہو سكے اور باپ اپنے موقف پر اصرار كرے تو اس حالت ميں اپنا مقدامہ قاضى كى عدالت ميں لے جانے ميں كوئى مانع اور حرج نہيں، تا كہ شرعى طور پر باپ پر جو واجب ہوتا ہے اس كى ادائيگى كرو سكے.

ليكن يہ ياد رہے كہ معاملہ جتنا بھى عدالتوں اور مقدموں سے دور رہے زيادہ بہتر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب