جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا تاجر كےليے نفع لينےميں كوئي حد متعين ہے؟

47889

تاریخ اشاعت : 25-06-2011

مشاہدات : 6624

سوال

كيا تاجر كےنفع لينےميں كوئي حد اور نسبت متعين ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تجارت ميں نفع كي كوئي ايسي حد اور نسبت متعين نہيں جس كا تاجر اپني تجارت ميں نفع لينےكا پابند ہو، ليكن جب بازار ميں كسي سامان كا ريٹ معروف اور معلوم ہو توتاجر كےليے خريدار كو دھوكہ دے كر خريدار كي جھالت اور ريٹ سےناعلمي كا فائدہ اٹھاتےہوئے معروف ريٹ سےزيادہ قيمت ميں چيزفروخت كرنا جائز نہيں.

اس كي دليل مندرجہ ذيل فرمان نبوي صلي اللہ عليہ وسلم ميں ملتي ہے:

رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

( تم باہر سےآنےوالے سامان كےقافلہ كو نہ ملو، جو كوئي بھي اسےملے اور اس مال كو مالك سےخريد لے اور فروخت كرنےوالا جب ماركيٹ ميں آئے تواسے اختيار ہے ) يعني وہ اس سودے كوباقي ركھے يا پھر ختم كردے . صحيح مسلم حديث نمبر ( 1519 ).

الجلب: اس مال كو كوكہتےہيں جو باہر سےمنڈي ميں لايا جائے.

اور حديث ميں سيد سےمراد باہر سےمال لانےوالاتاجر ہے، اور شارع نے ماركيٹ ميں آنےكےبعد اسےاختيار ديا ہے كہ وہ ماركيٹ سےباہر خريداري كرنے والے كےسودے كوباقي ركھے يا پھر اسے فسخ كردے، اس ليے كہ ماركيٹ سےباہر ملنےوالا غالب طور پر تاجر كو دوھوكہ ديتا اور ماركيٹ كےريٹ سے كم ريٹ دے كرخريداري كرليتا ہے، لھذا جب معاملہ واقعتا ايسا ہي پائے تو تاجركواختيار ہے كہ وہ اس سودے كو باقي ركھےياپھر فسخ كردے، اور حديث ميں شاہد اس بات ميں ہےكہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے ان تاجروں سےماركيٹ كےباہر ملنےسے منع فرمايا ہے كيونكہ ايسا كرنےميں انہيں دھوكہ دے كر ماركيٹ كےريٹ سے كم ريٹ ميں خريداري كي جاتي ہے.

مستقل فتوي كيمٹي سعودي عرب سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كيا دين اسلام ميں نفع كي حد مقرر كردہ ہے؟ اگر ايسا ہي ہے تواس كي زيادہ سےزيادہ حد كيا ہے، يا اس كي كوئي حد ہي نہيں آپ اس كےبارہ ميں كيا كہتےہيں؟

كميٹي كا جواب تھا:

تجارت ميں نفع كي كوئي حد مقرر نہيں بلكہ يہ حالات اور مانگ (يعني زيادہ اور كم مانگ) پر منحصر ہے، ليكن مسلمان چاہے وہ تاجر ہو يا كوئي اور اس كےليےبہتر اور اچھا يہ ہےكہ وہ خريدوفروخت كےمعاملہ ميں آساني اور سھل پسندي كا مظاہرہ كرے، اور اس ميں كسي كي غفلت سےفائدہ اٹھا كراسے خريد وفروخت ميں دھوكہ نہ دے، بلكہ اس ميں اسلامي اخوت وبھائي چارہ كے حق كو مد نظر ركھے. اھ

ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 91 ) .

كميٹي سے يہ سوال بھي كيا گيا كہ:

كيا تاجر كےليے دس فيصد سےزيادہ منافع لينا جائز ہے؟

كميٹي كا جواب تھا:

( شرعا توتاجر كا نفع غيرمحدود ہے، اس ميں كوئي تناسب نہيں، ليكن مسلمان كےليے خريدار كو دھوكہ دينا جائز نہيں كہ وہ اسے ماركيٹ كےريٹ كےعلاوہ دوسرے ريٹ ميں كوئي چيز فروخت كرے، اور مسلمان كےليے مشروع ہے كہ وہ نفع ميں زيادتي نہ كرے بلكہ جب وہ خريد وفروخت كرے تو اس ميں آساني پيدا كرے كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے معاملات ميں آساني كرنےپر ابھارا ہے ) اھ.

ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 13 / 92 ) .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب