ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

كيا پنجروں ميں پرندے بند كر كے ركھنا جائز ہيں؟

48008

تاریخ اشاعت : 20-02-2006

مشاہدات : 14416

سوال

كيا پنجروں ميں پرندے بند كر كے ركھنا جائز ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خوبصورتى اور ديكھنے، يا ان كى چہچاہٹ سننے كے ليے پرندے پنجروں ميں بند كر كے ركھنا جائز ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ انہيں كھانا پينا اور دانہ وغيرہ ديا جائے.

صحيحين ميں حديث مروى ہے كہ:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ كا والدہ كى والدہ كى طرف سے بھائى تھا جسے ابو عمير كہا جاتا تھا، اس كے پاس نغير نامى ايك پرندہ تھا جو مر گيا، اور وہ بچہ اس پر بہت غمگين ہوا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس سے يہ كہ كر ہنسى مذاق كرتے:

" اے ابو عمير نغير نے كيا كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5778 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2150 )

نغير ايك چھوٹا سا پرندہ ہے جو چڑيا كے مشابہ ہے، اور بعض نے اسے بلبل كہا ہے.

اس حديث سے پرندے پال كر ركھنے پر استدلال كيا گيا ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو عمير رضى اللہ تعالى عنہ كو اس سے نہيں روكا، اور اس كا انكار نہيں كيا.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 548 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ايسے شخص كے بارہ ميں كيا حكم ہے جو اپنے بچوں كو بہلانے كے ليے پرندے جمع كر كے پنجرے ميں بند كر ركھے؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اگر وہ ان پرندوں كو دانہ پانى مہيا كرتا اور باقاعدگى سے انہيں دانہ پانى ڈالتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ اس جيسے امور ميں اصل تو حلت ہى ہے، ہمارے علم كے مطابق اس كے خلاف كوئى دليل نہيں.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام صفحہ نمبر ( 1793 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

خوبصورتى والے پرندے ان كى آواز كے ليے فروخت كرنا، مثلا طوطے، اور رنگ برنگ پرندے، اور بلبل وغيرہ جائز ہيں؛ كيونكہ انہيں ديكھنا اور ان كى آواز سننا مباح اور جائز غرض ہے، شريعت ميں اس كى خريدوفروخت يا انہيں پالنے كى حرمت ميں كوئى دليل نہيں.

بلكہ ايسى دليل ملتى ہے جس سے علم ہوتا ہے كہ اگر پرندے كو دانہ پانى مہيا كيا جائے اور اس كى ديكھ بھال كى جائے تو اسے پال كر پنجرے ميں بند كر كے ركھنا جائز ہے.

اس كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہترين اخلاق كے مالك تھے، ميرا ايك بھائى تھا جسے ابو عمير كہا جاتا تھا، راوى كہتے ہيں كہ ميرا خيال ہے وہ دودھ پينا چھوڑ چكا تھا، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لاتے تو فرماتے:

" اے ابو عمير نغير نے كيا كيا؟ وہ اس چڑيا كے ساتھ كھيلا كرتا تھا... الحديث.

نغير ايك قسم كا پرندہ ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں اس حديث كى شرح ميں اس سے مستنبط ہونے والے فوائد شمار كرتے ہوئےكہتے ہيں:

اور اس ميں بچے كا پرندے كے ساتھ كھيلنے كا جواز بھى پايا جاتا ہے.

اور والدين كے اپنے بچے كو مباح چيز كے ساتھ كھيلنے كے ليے چھوڑنے كا بھى جواز پايا جاتا ہے.

اور بچوں كو بہلانے كے ليے مباح چيزوں پر مال خرچ كرنے كاجواز بھى پايا جاتا ہے.

اور پرندے وغيرہ كو پنجرے ميں بند كرنے كا جواز بھى ملتا ہے.

اور پرندے كے پر كاٹنے كا جواز بھى ہے، كيونكہ ابو عمير رضى اللہ تعالى عنہ كا پرندہ ان دونوں ميں سے خالى نہيں ہو سكتا، ايك چيز لازم ہو گى.

چاہے واقع جو بھى ہو حكم ميں اس كے ساتھ دوسرى چيز ملحق ہو سكتى ہے.

اور اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بھى جس ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ايك عورت بلى كى بنا پر آگ ميں داخل ہو گئى، اس نے اسے باندھ ديا، اور نہ تو اسے كھلايا اور پلايا، اور نہ ہى اسے چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھا كر گزارا كر لے"

اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.

اور اگر بلى ميں يہ جائز ہے تو پھر چڑيوں وغيرہ ميں بھى جائز ہوا.

اور بعض اہل علم انہيں تربيت كے ليے باندھنے كے مكروہ كے قائل ہيں، اور بعض نے اسے منع كرتے ہوئے كہا ہے كہ:

كيونكہ ان كى آواز سننا اور انہيں ديكھ كر خوش ہونے كى آدمى كو كوئى ضرورت نہيں، بلكہ يہ تو اكڑ اور شر اور عيش پرستى ہے، اور پھر يہ بيوقوفى بھى ہے، كيونكہ وہ اس پرندے كى آواز پر خوش ہو رہا ہے جس كى آواز اڑان بھرنے پر غمگين ہے، اور وہ فضاء ميں جانے كا افسوس كر رہا ہے.

جيسا كہ مرداوى كى كتاب " الفروع و تصحيحہ" ( 4 / 9 ) اور الانصاف ( 4 / 275 ) ميں ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 38 - 40 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب