جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

تكليف اور اذيت سے بچنے كے ليے داڑھى كاٹنے كا حكم

52886

تاریخ اشاعت : 11-02-2008

مشاہدات : 8579

سوال

ميرا دوست عنقريب ايك اسلامى ملك ميں شادى كر رہا ہے وہ صراط مستقيم پر قائم اور سنت كى پيروى كرتا ہے ( اس نے داڑھى بھى ركھى ہوئى ہے ) ليكن جس ملك ميں وہ جائيگا وہاں داڑھى والے شخص كو بند كر ليا جاتا ہے، اور پھر خفيہ پوليس والے اس كا پيچھا كرتے رہتے ہيں، ميرا دوست اپنے سسرالى خاندان كے ليے كوئى مشكلات پيدا كرنا نہيں چاہتا، كيونكہ حكومت كى جانب سے ان كا خفيہ طور پر پيچھا كرنا متوقع ہے، اس بنا وہ اپنى داڑھى كى تھوڑى سى كانٹ چھانٹ كرنا چاہتا ہے، اور پھر بعد ميں دوبارہ داڑھى بڑھا لےگا اگر مذكورہ بالا اسباب نہ ہوتے تو وہ داڑھى كو نہ كاٹتا، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرعى طور پر داڑھى پورى ركھنا واجب ہے، اور اسے مونڈنا حرام ہے، سوال نمبر ( 1189 ) كے جواب ميں داڑھى مونڈنے كا حكم بيان ہو چكا ہے كہ اسے مونڈنا حرام كاموں ميں شامل ہوتا ہے.

اور ابن حزم رحمہ اللہ نے علماء كرام كا اتفاق نقل كيا ہے كہ داڑھى مونڈنا جائز نہيں.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 2 / 189 ).

ليكن قيد و بند كے خوف يا داڑھى ركھنے والے كو دى جانے والى اذيت سے بچنے كے ليے داڑھى مونڈنے كے متعلق يہ ہے كہ:

يہ خوف ايك درجہ تك نہيں ہے، بلكہ بعض اوقات تو راجح گمان ہوتا ہے، اور بعض اوقات صرف وہم، اور بعض اوقات دونوں برابر برابر ہوتے ہيں.

صرف ظن راجح كى حالت ميں ہى داڑھى مونڈنا جائز ہے، اس كے علاوہ كسى بھى حالت ميں نہيں.

اور يہ اس صورت ميں ضروريات كے باب ميں شامل ہو گا، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

پھر جو كوئى مجبور ہو جائے، اور وہ حد سے تجاوز كرنے والا اور زيادتى كرنے والا نہ ہو، اس پر ان كے كھانے ميں كوئى گناہ نہيں، اللہ تعالى بخشش كرنے والا مہربان ہے البقرۃ ( 173 ).

يا پھر يہ چيز باب الاكراہ ميں شامل ہو گى، فرمان بارى تعالى ہے:

جو شخص اپنے ايمان كے بعد اللہ سے كفر كرے سوائے اس كے كہ جس پر جبر كيا جائے، اور اس كا دل ايمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ كھلے دل سے كفر كريں تو ان پر اللہ تعالى كا غضب ہے، اور انہى كے ليے بہت بڑا عذاب ہے النحل ( 106 ).

اس ميں اكراہ اور جبر وہ معتبر ہے كہ داڑھى نہ منڈانے كى صورت ميں اسے نقصان پہنچے، ليكن صرف تنگى اور سوال و جواب اور تحيقيق كرنا، يہ ايسے امور ہيں جن سے داڑھى منڈے بھى نہيں بچ سكتے، اور ايسے شخص كو گناہ ميں پڑنا جائز نہيں.

اكراہ اور جبر كى كئى ايك شروط ہيں، جن كا ہونا ضرورى ہے حتى كہ مسلمان شخص كے ليے كوئى حرام فعل يا قول جائز ہو، اور ان شروط كا معلوم ہونا ايك اہم چيز ہے، بہت سارے لوگ اكراہ اور جبر كا دعوى كرتے ہيں حالانكہ وہ ايسے نہيں ہوتے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اكراہ اور جبر كى تين شرطيں ہيں:

پہلى شرط:

وہ امر ايسے شخص كى جانب سے ہو جو قادر ہے.

دوسرى شرط:

اس كے ظن غالب ميں ہو كہ اگر مطالبہ تسليم نہ كيا گيا تو اسے جو دھمكى دى گئى ہے اس سے نقصان ہوگا.

تيسرى شرط:

وہ ايسا امر ہو جس سے بہت زيادہ نقصان اور ضرر پہنچے، مثلا قتل، شديد قسم كا زدكوب كرنا، قيد و بند، اور لمبى دير تك محبوس ركھنا، ليكن صرف سب و شتم اكراہ اور جبر ميں شامل نہيں ہوتا، اور اسى طرح تھوڑا سا مال لينا بھى.

ليكن تھوڑا سا ضرر اور نقصان اگر تو كسى ايسے شخص كے متعلق ہو جو اس كى پرواہ نہ كرتا ہو، تو يہ جبر اور اكراہ نہيں، اگر بعض صاحب مروؤت كے حق ميں وہ اہانت و توہين كے طريقہ پر ہو تو وہ كسى دوسرے كے ليے بہت شديد زدكوب كرنے كى جگہ ميں ہوتا ہے.

اور اگر اسے دھمكى دى جائے كہ اس كے بچے كو تكليف اور اذيت دى جائيگى، تو ايك قول كے مطابق يہ اكراہ اور جبر نہيں، كيونكہ ضرر تو اس كے علاوہ كسى اور كو پہنچ رہا ہے، اور اولى يہى ہے كہ يہ اكراہ اور جبر ہے، كيونكہ يہ چيز تو اس كے ہاں اس كا مال لينے سے بھى زيادہ عظيم اور بڑا ہے، اور اس كى دھمكى اكراہ ہے، تو اسى طرح يہ بھى اكراہ ہوگا.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 292 ).

اور اگر يہ تكليف اور اذيت داڑھى ہلكى كر كے ختم اور دور كى جا سكتى ہو تو پھر داڑھى منڈانا صحيح نہيں، بلكہ وہ صرف اسے ہلكا كر لے، كيونكہ داڑھى منڈانا ہلكى كرنے سے زيادہ شديد ہے.

يہاں اس بات كى تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ: وہ اس ملك كا سفر كرنے كا محتاج ہو، ليكن اس ملك جانے كى ضرورت نہ ہو تو پھر سفر كے ليے داڑھى منڈانا جائز نہيں، كيونكہ وہ اس كے ليے مجبور نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات