جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا عورت جہاد كرے گى

6495

تاریخ اشاعت : 01-04-2008

مشاہدات : 11196

سوال

كيا عورت پر جہاد واجب نہيں، چاہے وہ جہاد دعوتى ہو يا كفار كے خلاف ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت پر كفار كے ساتھ قتال اور لڑائى كے ذريعہ جہاد كرنا فرض نہيں، ليكن اس پر حق كى دعوت و تبليغ اور بيان اور تشريح كا جہاد ہے اور وہ بھى ايسى حدود اور قيود و ضوابط ميں رہتے ہوئے جس سے اس كى حرمت ميں كوئى فرق نہ پڑے، اور اس كے ساتھ ساتھ اسے بے پردگى اور غير محرم مردوں كے ساتھ اختلاط سے بھى اجتناب كرنا ہو گا، اور نہ ہى وہ مردوں كے ساتھ نرم لہجہ اختيار كرے گى، اور نہ اجنبى مردوں كے ساتھ خلوت كرسكتى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں كے متعلق فرمايا ہے:

اور تمہارے گھروں ميں جو اللہ تعالى كى آيات اور حكمت ( يعنى حديث رسول ) پڑھى جاتى ہے اسے ياد كرتى رہو الاحزاب ( 34 ).

اور ام المومنين عائشہ رضي اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا عورتوں پر بھى جہاد ہے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جى ہاں، ان پر ايسا جہاد ہے جس ميں قتال اور لڑائى نہيں ہے، حج اور عمرہ ہے"

مسند احمد ( 6 / 68 ) سنن ابن ماجۃ ( 2 / 968 ).

اور ايك دوسرى حديث ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ہى بيان كرتى ہيں انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كي:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ديكھتے ہيں كہ جہاد افضل ترين عمل ہے، تو كيا ہم بھى جہاد نہ كيا كريں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ليكن افضل جہاد حج مبرور ہے"

مسند احمد ( 6 / 67 ) صحيح بخارى ( 2 / 141 ).

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 34 )