منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بچوں كو روزہ ركھنے كى عادت ڈالنے كے ليے كونسى عمر مناسب ہے ؟

سوال

كونسى عمر ہے جس ميں بچوں پر روزہ ركھنا واجب ہے ؟
اور ہم انہيں روزہ ركھنے اور مسجد ميں نماز ادا كرنے اور خاص كر نماز تراويح كى ادايئگى پر كيسے ابھار سكتے ہيں ؟
اور كيا كوئى چھوٹے موٹے دينى افكار ہيں جن كے ساتھ رمضان المبارك ميں بچوں كو مشغول ركھا جا سكے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بالغ ہونے سے قبل چھوٹے بچے پر روزہ ركھنا واجب نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميرى امت ميں سے تين قسم ( كے لوگوں ) سے قلم اٹھا ليا گيا ہے، مجنون اور پاگل اور بے عقل سے جب تك كہ وہ ہوش ميں آجائے، اور سوئے ہوئے سے جب تك كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے جب تك كہ وہ بالغ ہو جائے"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4399 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اس كے باوجود بچے كو روزہ ركھنے كا كہا جائے تا كہ وہ روزے كا عادى بن جائے، اور اس ليے بھى كہ وہ جو اعمال صالحہ كرتا ہے وہ لكھے جاتے ہيں.

والدين كو چاہيے كہ وہ بچے كو اس عمر سے ہى روزہ ركھنے كى عادت ڈالنا شروع كرديں جس ميں وہ روزہ ركھنے كى طاقت ركھے، اور يہ عمر بچے كے جسم اور بناوٹ كے اعتبار سے مختلف ہوتى ہے، اور بعض علماء كرام نے اس كى تحديد كرتے ہوئے دس برس كى عمر كہا ہے.

خرقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور جب بچہ دس برس كى عمر كا ہو اور روزہ ركھنے كى طاقت ركھے تو اس كا مؤاخذہ كيا جائے"

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" يعنى: اس پر روزہ لازم كيا جائے اور اسے روزہ ركھنے كا حكم ديا جائے اور اگر روزہ نہ ركھے تو اسے مار كر سزا دى جائے، تا كہ وہ روزہ ركھنے كى مشق كر سكے اور اس كا عادى بنے، جيسا كہ اسے نماز كا بھى حكم ديا جائے اور اس پر نماز كى ادائيگى لازم كى جائے، بچے كو روزہ ركھنے كا حكم دينے والوں كا مسلك اختيار كرنے والوں ميں عطاء، حسن، ابن سيرين، زہرى، قتادہ اور شافعى رحمہم اللہ شامل ہيں.

اور اوزاعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جب بچہ مسلسل تين روزے ركھنے كى طاقت ركھتا ہو اور ان ايام ميں كمزور اور ڈھيلا و سست نہ ہو تو اس پر رمضان المبارك كے روزے ركھنے لازم كيے جائيں.

اور اسحاق رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: جب بچہ بارہ برس كا ہو جائے تو ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ اسے روزہ ركھنے كا مكلف كيا جائے تا كہ وہ اس كا عادى ہو جائے.

اور دس برس كى عمر كو معتبر شمار كرنا اولى اور بہتر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عمر ميں نماز كى ادائيگى نہ كرنے پر مارنے كا حكم ديا ہے، اور روزے كو نماز كے ساتھ ہى معتبر سمجھنا زيادہ بہتر اور احسن ہے كيونكہ يہ ايك دوسرے كے زيادہ قريب ہيں، اور اركان اسلام ميں يہ دونوں بدنى عبادتيں اكٹھيں ہيں، ليكن يہ ہے كہ روزہ زيادہ مشقت كا باعث ہے اس ليے اس كے ليے طاقت اور استطاعت كا معتبر سمجھا گيا ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے بعض اوقات نماز كى ادائيگى كى استطاعت ركھنے والا شخص روزہ ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا" انتہى

ديكھيں المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 4 / 412 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا بھى اپنى اولاد كے متعلق يہى طريقہ تھا، بچوں ميں سے جو روزہ ركھنے كى طاقت ركھتا وہ اسے روزہ ركھنے كا حكم ديتے، اور جب ان ميں سے كوئى بھوك كى بنا پر روتا تو انہيں كھلونے دے ديتے تا كہ وہ اس سے كھيلنے لگے، اگر ان كى جسمانى يا بيمارى كمزورى كى بنا پر روزہ انہيں ضرر ديتا ہو تو پھر روزہ ركھنے پر اصرار كرنا جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" چھوٹے بچے پر بالغ ہونے تك روزے ركھنے لازم نہيں، ليكن جب وہ روزے كى طاقت ركھے تو اسے روزہ ركھنے كا حكم ديا جائے گا تا كہ وہ روزہ ركھنے كى مشق كر سكے اور اس كا عادى بنے، اور بلوغت كے بعد اس كے ليے روزہ ركھنا آسان ہو سكے، صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم ـ جو كہ اس امت كے بہترين لوگ تھے ـ بچپن ميں ہى اپنے بچوں كو روزہ ركھوايا كرتے تھے" انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 28 - 29 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

سوال: ؟

ميرا چھوٹا بچہ رمضان المبارك كے روزے ركھنے پر اصرار كرتا ہے، حالانكہ چھوٹى عمر اور صحت كى خرابى كى بنا پر روزہ اسے ضرر ديتا ہے، تو كيا ميں اس كے ليے سخت رويہ اختيار كرسكتا ہوں تا كہ وہ روزہ نہ ركھے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جب بچہ چھوٹا ہو اور بالغ نہ ہوا تو اس كے ليے روزہ ركھنا لازم نہيں ليكن اگر وہ بغير كسى مشقت كے روزہ ركھنے كى استطاعت ركھتا ہو تو اسے روزہ ركھنے كا حكم ديا جائے گا، صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين اپنے بچوں كو روزہ ركھوايا كرتے تھے، حتى كہ ان ميں سے چھوٹے بچے روتے تو وہ انہيں كھيلنے كے ليے كھلونے ديتے، ليكن اگر يہ ثابت ہو جائے كہ يہ اسے ضرر اور نقصان ديتا ہے تو اسے ايسا كرنے سے منع كيا جائے گا.

جب اللہ سبحانہ وتعالى نے ہميں بچوں كو ان كا مال اس خدشہ سے دينے سے منع كيا ہے كہ كہيں وہ اپنا مال خراب ہى نہ كر بيٹھيں، تو جسمانى ضرر اور نقصان كى بنا پر ہم بدرجہ اولى انہيں اس سے منع كرينگے.

ليكن انہيں سختى سے نہيں بلكہ اچھے اور بہتر طريقہ سے منع كيا جائے كيونكہ بچوں كى تربيت ميں سختى سے اجتناب كرنا چاہيے" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 83 ).

دوم:

والدين كے ليے يہ ممكن ہے كہ وہ اپنى اولاد كو روزے ركھنے پر ابھارنے كے ليے ہر دن ہديہ اور تحفہ ديں، يا پھر ان كے دوستوں اور ان كے درميان آپس ميں مقابلہ بازى كى روح پيدا كريں اور جو ان سے چھوٹى عمر كے بچے ہيں ان كے مابين مقابلہ بازى، اور يہ بھى ممكن ہے كہ انہيں نماز كى ادائيگى پر ابھارنے كے ليے مسجد ميں ليجايا جائے، اور خاص كر جب وہ والد كے ساتھ نكل كر ہر روز مختلف مسجدوں ميں نماز ادا كرے.

اور اسى طرح يہ بھى ممكن ہے كہ روزہ ركھنے پر كوئى انعام ديا جائے چاہے يہ انعام ان كى تعريف كر كے يا پھر انہيں سيرو تفريح كے ليے ليجا كر يا پھر ان كى پسنديدہ اشياء كى خريدارى وغيرہ كى صورت ميں ديا جائے.

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ كچھ والدين كى جانب سے اس سلسلے ميں بچوں كو روزہ پر ابھارنے كے ليے بہت كوتاہى ہوتى ہے، بلكہ بعض اوقات تو آپ كو ان عبادات ميں ركاوٹ ملے گى، اور بعض والدين يہ گمان كرتے ہيں كہ بچوں كے ساتھ شفقت اور مہربانى كرنے كا تقاضا يہ ہے كہ انہيں روزہ نہ ركھوايا جائے يا ان كے بچے نماز كى ادائيگى نہ كريں، حالانكہ شرعى اور تربيتى طور پر يہ بہت بڑى اور فحش غلطى ہے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ وتعالى نے ہر مكلف اور استطاعت ركھنے والے مقيم مسلمان پر روزے ركھنے فرض كيے ہيں، ليكن وہ چھوٹا بچہ جو ابھى بالغ نہيں ہوا اس پر روزہ فرض نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تين قسم ( كے افراد ) سے قلم اٹھا لى گئى ہے، اور اس ميں نابالغ بچہ ذكر كيا "

ليكن بچے كے ولى پر واجب ہوتا ہے كہ جب بچہ اس عمر كو پہنچے جب وہ روزہ ركھنے كى استطاعت ركھتا ہو تو اسے روزہ ركھنے كا حكم دے؛ كيونكہ اس سے اس كى اركان اسلام پر عمل كرنے كى مشق اور تربيت ہو گى، اور بعض لوگوں كو ديكھتے ہيں كہ وہ اپنے بچوں كو ويسے ہى چھوڑ ديتے ہيں اور انہيں نہ تو نماز ادا كرنے كى تلقين كرتے ہيں اور نہ ہى روزہ ركھنے كى، حالانكہ يہ بہت غلط ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كے ہاں اس نے اس كا جواب دينا ہے اور اس سے اس كى باز پرس ہو گى.

لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ وہ بچوں پر شفقت اور مہربانى كرتے ہوئے انہيں روزہ نہيں ركھواتے، حالانكہ حقيقت يہ ہے كہ اپنى اولاد پر شفقت اور مہربانى كرنے والا شخص تو وہ ہے جو انہيں خير و بھلائى اور نيكى كے كاموں كى مشق كروائے اور اس كى تربيت دے، نہ كہ وہ جو ان كى نفع مند تربيت كو ترك كر دے" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 19 - 20 ).

سوم:

اور يہ بھى ممكن ہے كہ والدين اپنى اولاد كو روزاہ كچھ نہ كچھ قرآن مجيد حفظ كرنے اور تلاوت كرنے ميں مشغول ركھيں، اور اسى طرح وہ كتابيں جو ان كى عمر كے مناسب ہوں پڑھائيں، اور انہيں مختلف قسم كى مفيد كيسٹيں سنوائيں جس ميں ترانے اور تقارير وغيرہ ہوں، اور ان كے ليے مفيد قسم كى ويڈيو كيسٹيں دكھائيں، بچوں كے ٹى وى چينل " المجد " نے ان اشياء كو اكثر جمع كر ديا ہے، تو اس طرح روزانہ اس كے ليے كوئى خاص وقت متعين كر ليا جائے جس سے بچوں كو فائدہ ہو.

ہم سوال كرنے والى بہن كا بچوں كى تربيت ميں اہتمام كرنے پر شكر گزار ہيں، يہ مسلمان خاندان ميں خير وبھلائى كى دليل ہے، ليكن بہت سے لوگ اپنى اولاد كى ذہنى اور بدنى طاقت كو بہتر اور اچھے انداز سے پھلنے پھولنے كا موقع نہيں ديتے، بلكہ انہيں سست اور كاہل بنا كر دوسروں كے محتاج كر ديتے ہيں.

اور اسى طرح وہ انہيں نماز و روزہ جيسى عبادات كى عادت نہيں ڈالتے تو اس طرح بہت سى نسليں ايسے ہى بڑى ہوئيں اور بڑے ہو كر عبادت سے ان كے دلوں ميں نفرت پيدا ہو گئى، اور بڑى عمر كے ہو جانے كے بعد ان كے والدين كے ليے انہيں راہ راست پر لانا اور نصيحت كرنا مشكل ہو گيا، ليكن اگر وہ شروع ميں ہى اس معاملے كا خيال كرتے تو آخر ميں انہيں ندامت كا سامنا نہ كرنا پڑتا.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ ہمارى اولاد كى تربيت اور انہيں عبادت سے محبت پيدا كرنے ميں ہمارى مدد و نصرت فرمائے، اور جو كچھ ہم پر اولاد كے بارہ ميں واجب ہے اس كى ادائيگى كى توفيق عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب