جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مريض كا رمضان ميں دن كے وقت دوائى كھانے كا حكم

سوال

ميں دماغى بيمارى كى بنا پر صبح اور شام دوائى كھانے پر مجبور ہوں، اور رات كے وقت دوائى كى خوراك تو مجھے بہت تنگ كرتى ہے اور بعض اوقات تو ميں رات اٹھ كر سحرى بھى نہيں سكتا، اور پھر روزہ كى حالت ميں صبح كى خوراك بھى رہ جاتى ہے، اور افطارى كے وقت يہ دوائى كھانے ميں بہت تاخير ہو جاتى ہے، مجھے كيا كرنا چاہيے، ميں نے كچھ دنوں سے روزے ركھنے شروع كيے ليكن اس دوائى كى بنا پر بھى ركھنے چھوڑ ديے ہيں.
كيا ماہ رمضان كے آخر ميں مجھے ان روزوں كے عوض بيمارى كى بنا پر فديہ دينا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ عزت والے عرش كے رب عظيم سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو شفا نصيب فرمائے، اور آپ كے ليے اجروثواب لكھے.

سوال نمبر ( 12488 ) كے جواب ميں روزہ نہ ركھنے كے مباح مرض بيان كيا گيا ہے، وہ يہ كہ روزہ دار كو روزہ كى بنا پر بہت زيادہ مشقت ہو اور برداشت سے باہر ہو جائے، يا پھر اس كى بنا پر مرض ميں اضافہ ہونے كا خدشہ ہو، يا روزہ مرض سے شفايابى ميں تاخير كا باعث بنتا ہو، اگر آپ كى حالت ايسى ہے تو پھر آپ كے ليے رمضان المبارك كے روزہ چھوڑنا جائز ہيں.

دوم:

اور اگر آپ كے ليے افطارى كے وقت اور دوسرى بار سحرى كے وقت دعا كھانى ممكن ہو تو آپ پر يہ واجب ہے، اور اس وقت روزہ چھوڑنے كا مباح عذر نہ ہونے كى بنا پر آپ كے ليے روزہ چھوڑنا جائز نہيں.

ليكن اگر ايسا ممكن نہ ہو اور دن كے وقت دعا استعمال كرنا ضرورى ہو تو پھر آپ كے ليے روزہ چھوڑنا جائز ہے.

سوم:

رہا روزے كے بدلے صدقہ اور فديہ نكالنا تو اس ميں آپ كسى ثقہ اور معتبر ڈاكٹر سے مشورہ كريں، اور اگر آپ كى بيمارى سے شفايابى كى اميد ہے تو آپ پر روزوں كى قضاء واجب ہو گى، اور اس كے بدلے غلہ دينا يا كھانا كھلانا كفائت نہيں كريگا.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے .

اس ليے آپ اللہ تعالى سے شفايابى كا انتظار كريں، اور شفاياب ہونے كے بعد جتنے روزے ترك كيے ہوں ان ايام كے روزے ركھيں.

اور اگر آپ كا مرض ايسا ہے جس سے شفايابى كى اميد نہيں تو آپ كے ذمہ قضاء نہيں، بلكہ آپ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيں.

يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا ضرورى ہے كہ غلہ دينا واجب ہے، ليكن غلہ يا كھانے كے بدلے نقد رقم دينا كفائت نہيں كريگى، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 39234 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ ا س كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب