جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

قبروں كى زيارت اور ان محفلوں ميں شريك ہونا جن كے بارہ ميں گمان كيا جاتا ہے كہ وہاں اولياء كى روحيں حاضر ہوتى ہيں

6744

تاریخ اشاعت : 28-06-2021

مشاہدات : 8394

سوال

قبروں كى زيارت اور وہاں نماز پڑھنے كا حكم كيا ہے ؟
پاكستان ميں سالانہ عرس نامى چيز كا اہتمام كيا جاتا ہے، كيا اس ميں شريك ہونا جائز ہے ؟
اس ميں شريك ہونے والے لوگ كہتے ہيں كہ فوت ہونے والا شخص اللہ كا ولى تھا، ممكن ہے وہ ہمارى دعا اللہ تك پہنچا دے، اور نيك و صالح سے دعا كرنا زيادہ قبوليت كى باعث ہے، تو كيا آپ اس موضوع پر كچھ روشنى ڈال سكتے ہيں، جزاكم اللہ خيرا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - قبروں كى زيارت دو طرح كى ہے:

پہلى قسم:

شرعى طور پر مشروع اور مطلوب زيارت تو مردوں كے ليے دعائے استغفار اور ان كے ليے رحم كى دعا كرنے، اور موت اور آخرت كى ياد كرنے كے ليے كى جاتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" قبروں كى زيارت كيا كرو كيونكہ يہ تمہيں آخرت ياد دلاتى ہے"

صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 976 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم بھى قبروں كى زيارت كيا كرتے تھے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ جب بھى ان كى بارى والى رات ہوتى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كے آخرى حصہ ميں بقيع كى طرف نكل جاتے اور وہاں يہ دعا پڑھا كرتے تھے:

 السلام عليكم دار قوم مؤمنين وأتاكم ما توعدون ، غدا مؤجلون ، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ، اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد 

اے مومنوں كى قوم تم پر سلامتى ہو، اور جس كا تمہارے ساتھ وعدہ كيا گيا وہ تمہيں دے ديا گيا، اور يقينا ہم بھى تمہارے ساتھ ملنے والے ہيں، اے اللہ اہل بقيع الغرقد كو بخش دے "

صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 974 ).

دوسرى قسم: بدعتى زيارت

بدعتى زيارت يہ ہے كہ قبروں والوں سے دعا كرنا، اور ان سے مدد طلب كرنا، يا ان كے ليے جانور ذبح كرنا، يا ان كے ليے نذر ماننا اور چڑھاوے چڑھانا، يہ سب كچھ منكر اور شرك اكبر ہے، اور اس كے ساتھ يہ بھى ملحق كيا جائےگا كہ وہ قبر كے پاس جا كر دعائيں كى جائيں اور وہاں نماز ادا كى جائےاور قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے، يہ سب كچھ بدعت اور غير مشروع ہے.

2 - اور رہا مسئلہ قبروں كے پاس نماز ادا كرنے كا، اگر تو اس سے مراد نماز جنازہ ہے تو يہ جائز ہے اس ميں كوئى ممانعت نہيں، اور اگر نماز جنازہ نہيں بلكہ فرضى اور نفلى عام نماز ہے تو يہ حرام اور ممنوع ہے.

قبر پر نماز جنازہ كے جائز ہونے كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك سياہ مرد يا عورت مسجد كى صفائى كيا كرتى تھى تو وہ مر گئى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے متعلق دريافت كيا تو صحابہ كرام نے عرض كيا وہ تو فوت ہو گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم نے مجھے كيوں نہ بتايا، مجھے اس كى قبر كا بتاؤ، يا فرمايا: اس عورت كى قبر كا بتاؤ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى قبر پر آئے اور نماز جنازہ ادا كى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 446 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 956 ).

اور قبرستان ميں نماز جنازہ كے علاوہ كوئى اور نماز جائز نہ ہونے كى دليل:

ا ـ عائشہ اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم بيان كرتے ہيں كہ:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر موت نازل ہوئى تو وہ اپنے چہرے پر ايك كپڑا ڈالنے لگے اور جب غشى كم ہوئى تو اپنا چہرہ ننگا كيا اور اسى حالت ميں فرمانے لگے:

" اللہ تعالى يہوديوں اور عيسائيوں پر لعنت كے انہوں نے اپنے انبياء كى قبروں كو مسجديں بنا ليا تھا"

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس سے ڈرا رہے تھے جو انہوں نے كيا تھا.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 425 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 531 ).

ب ـ ابو مرثد غنوى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" قبروں پر نہ بيٹھو اور نہ ہى ان كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 972 ).

3 - اور ہر سال منائے جانے والے عرس كے متعلق گزارش يہ ہے كہ:

اگر اس ميں كوئى عبادت كى جاتى ہے، يا وہاں شريك ہونے والے گمان كرتے ہيں كہ وہ اس طرح اللہ تعالى كا قرب حاصل كرتے ہيں، يا اس ميں معاصى و گناہ اور منكرات كا ارتكاب كيا جاتا ہے، اور ڈھول باجا اور ناچ پايا جاتا ہے تو پھر وہاں شريك ہونا اور اس ميں شركت كرنا حرام اور ناجائز ہے.

اور اگر يہ سب كچھ نہ بھى ہو تو پھر بھى وہاں نہ جائيں كيونكہ شرعى عيد ( عيد الفطر اور عيد الاضحى ) كے علاوہ كوئى اور عيد منانا حرام اور بدعت ہے، اور وہاں حاضر ہونے والوں كا يہ اعتقاد ركھنا كہ اس عرس ميں ولى كى روح حاضر ہوتى ہے، يہ اعتقاد بھى حرام اور بدعت ہے، اور مستقبل ميں يہ اعتقاد دين بن سكتا ہے.

تو اس طرح لوگوں كے ليے فتنہ كا باعث بنےگا، لھذا اس كا انكار كرنا اور اس سے روكنا اور اس عرس ميں حاضر نہ ہونا واجب ہے، اللہ تعالى ہى سيدھا راہ دكھانےوالا ہے.

4 - اور رہا مسئلہ كسى نيك اور صالح شخص سے اس كى زندگى ميں دعا كروانا تو زندہ شخص سے دعا كروانا جائز ہے، كيونكہ اس كى نيكى كى بنا پر قبوليت كى اميد كى جا سكتى ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

ا ـ عثمان بن حنيف رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك اندھا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگا:

اللہ تعالى سے دعا كريں كہ مجھے عافيت سے نوازے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اگر تم چاہو تو ميں دعا كر ديتا ہوں، اور اگر چاہو تو اسے مؤخر كر ديتا اور يہ تمہارے ليے بہتر ہے.

اور ايك روايت ميں ہے كہ:

" اور اگر تم صبر كرو تو تمہارے ليے بہتر ہے"

تو وہ كہنے لگا: دعا كرديں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اچھى طرح وضوء كرنے كا حكم ديا اور پھر دو ركعتيں ادا كرے ....... "

اسے امام احمد ( 4 / 138 ) اور ترمذى ( 5 / 569 ) اور ابن ماجۃ ( 1 / 441 ) نے روايت كيا ہے، اور يہ حديث صحيح ہے.

ب ـ انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايك شخص كھڑا ہو كر كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اونٹ اور بكرياں ہلاك ہو رہے ہيں، لھذا آپ اللہ تعالى سے دعا كريں كہ وہ ہميں بارش سے نوازے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ پھيلائے اور دعا كى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 890 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 897 ).

5 - اور جب نبى يا ولى فوت ہو جائے تو اس سے دعا مانگنى مشروع نہيں كيونكہ وہ دنيا سے منقطع ہو چكے ہيں، اور ايسا كرنا شرك كے دروازوں ميں سے ايك دروازہ ہے، اس ميں امت كا كوئى صحابى جو اس امت كے صالح لوگ تھے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والا بھى داخل نہيں ہوا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اس سے بڑھ كر اور كون گمراہ اور ظالم ہو گا ؟ جو اللہ تعالى كے علاوہ ايسوں كو پكارتا ہے جو قيامت تك اس كى دعا قبول نہيں كر سكتے، بلكہ ان كے پكارنے سے وہ تو بالكل بے خبر ہيں، اور جب لوگوں كو جمع كيا جائےگا تو يہ ان كے دشمن بن جائيں گے، اور ان كى عبادت سے صاف انكار كر جائيں گے الاحقاف ( 5 - 6 ).

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

بندے سے مطلوب تو يہ ہے كہ اگر كوئى ايسا معاملہ ہو جس پر اللہ تعالى كے علاوہ كوئى اور قادر نہ ہو، مثلا:

وہ اپنے مريض كى شفايابى آدميوں يا جانوروں سے مانگتا پھرے، يا اپنے قرض كى ادائيگى غير كسى متعين طرف كے، يا اپنے اہل وعيال اور اسے جو دنياوى يا اخروى تكليف ہے ، يا دشمن پر غلبہ اور اس كے خلاف مدد، اور دل كى ہدايت و راہنمائى، اور گناہوں كى بخشش، يا جنت ميں داخلہ، يا جہنم سے نجات يا تعليم علم، يا قرآن مجيد كى تعليم، يا دل كى اصلاح، اور اخلاق كو بہتر بنانا، اور تزكيہ نفس، يا اس طرح كے دوسرے امور، يہ سب ايسےہيں جو اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور سے طلب كرناجائز نہيں.

اور نہ ہى يہ جائز ہے كہ وہ كسى فرشتے يا نبى يا شيخ چاہے وہ زندہ ہو يا مردہ يہ كہتا پھرے: ميرے گناہ معاف كردے، ميرے دشمن كے خلاف ميرى مدد كر، اور نہ ہى يہ كہہ سكتا ہے: ميرے مريض كو شفا دے، مجھے عافيت سے نواز، يا ميرے اہل و عيال اور ميرے جانوروں وغيرہ كو عافيت دے.

اور جس نے بھى يہ سب كچھ مخلوق سے مانگا چاہے وہ كوئى بھى ہو تو وہ اپنے رب كے ساتھ شرك كرنےوالوں ميں سے ہے، اور يہ اسى جنس كے مشركيں ميں سے ہے جو فرشتوں اور انبياء اور ان مجسموں كى پوجا كرنے والوں ميں سے ہے جو انہوں نے ان كى شكلوں ميں بنا ركھے تھے، اور نصارى كى اسى دعا كى جنس ميں سے ہے جو انہوں نے مسيح عليہ السلام اور ان كى والدہ كے ساتھ كى تھى.

فرمان بارى تعالى ہے:

اوروہ وقت بھى قابل ذكر ہے جب اللہ تعالى فرمائےگا كہ اے عيسى بن مريم ! كيا تو نے ان لوگوں سے كہہ ديا تھا كہ مجھے اور ميرى ماں كو بھى اللہ تعالى كے علاوہ معبود قرار دے لو! المائدۃ ( 116 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

ان لوگوں نے اللہ تعالى كو چھوڑ كر اپنے عالموں اور درويشوں كو رب بنا ليا، اور مسيح بن مريم كو بھى، حالانكہ انہيں صرف ايك اكيلے اللہ تعالى ہى كى عبادت كا حكم ديا گيا تھا، جس كے سوا كوئى اور معبود نہيں، وہ پاك ہے ان كے شريك مقرر كرنے سے التوبۃ ( 31 ).

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 27 / 67 - 68 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كا يہ بھى كہنا ہے كہ:

اور جو كوئى شخص كسى نبى يا نيك اور صالح كى قبر پر جائے، يا جس قبر كے متعلق يہ اعتقاد ركھا جاتا ہے كہ وہ نبى يا نيك شخص كى قبر ہے، ليكن حقيقت ميں وہ ايسے نہ ہو اور وہ اس قبر پر جا كر اس سے مانگے، اور اس سے مدد طلب كرے، تو اس كے تين درجے ہيں:

پہلا درجہ:

وہ شخص اس سے اپنى ضروريات طلب كرے، مثلا اس سے سوال كرے كہ وہ اس كى يا اس كے جانوروں كى مرض دور كر دے، يا اس كى قرض ادا كر دے، يا اس كے دشمن سے انتقام لے، يا اس كى جان اور اس كے اہل و عيال اور اس كے جانوروں كو عافيت ميں ركھے، وغيرہ دوسرے امور جن پر اللہ تعالى كے علاوہ كوئى اور قادر نہيں تو يہ صريح شرك ہے، اور اس كے مرتكب كو توبہ كروائى جائےگى اگر تو وہ توبہ كر لے تو ٹھيك وگرنہ اسے قتل كر ديا جائےگا.

اور اگر وہ يہ كہے كہ ميں تو اس سے اس ليے سوال كرتا ہوں كہ وہ مجھ سے زيادہ اللہ تعالى كے قريب ہے، تا كہ وہ ان معاملات ميں ميرى سفارش كردے كيونكہ ميں تو اسے وسيلہ بنا رہا ہوں، جس طرح كسى بادشاہ اور حكمران كے سامنے وزير اور مشير كو وسيلہ بنايا جاتا ہے، تو يہ مشركين اور نصارى كے افعال ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ وہ يہ گمان كرتے ہيں كہ انہوں نے اپنے علماء اور درويشوں كو سفارشى بنايا ہوا ہے جو ان كے مطالبات ميں ان كى سفارش كرتے ہيں، اور اسى طرح اللہ تعالى نے مشركوں كے متعلق خبر ديتے ہوئے فرمايا:

ہم تو ان كى عبادت صرف اس ليے كرتے ہيں كہ يہ ( بزرگ ) اللہ كے قرب تك ہمارے رسائى كرا ديں الزمر ( 3 ).

اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:

كيا ان لوگوں نے اللہ تعالى كے سوا اوروں كو سفارشى مقرر كر ركھا ہے؟ آپ كہہ ديجئے! كہ اگر وہ كچھ اختيار نہ ركھتے ہوں، اور نہ ہى عقل ركھتے ہوں، كہہ ديجئے! كہ تمام سفارش كا مختار اللہ ہى ہے، تمام آسمانوں اور زمين كا راج اسى كے ليے ہے، تم سب اسى كى طرف لوٹائے جاؤ گے الزمر ( 43 - 44 )

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى كچھ اس طرح ہے:

تمہارے ليے اس كے سوا كوئى مددگار اور سفارشى نہيں، كيا پھر بھى تم نصيحت حاصل نہيں كرتے السجدۃ ( 4 ).

اور ايك اورمقام پر رب ذوالجلال نے فرمايا:

كون ہے جو اس كے ہاں اس كى اجازت كے بغير سفارش كرے البقرۃ ( 255 ).

اللہ تعالى نے اپنے اور مخلوق كے درميان فرق بيان كيا ہے.

لوگوں كى عام طور پر عادت ہے كہ وہ اپنے بڑے لوگوں كے پاس اسے سفارشى بنا كر لے جاتے ہيں جس پر وہ كرم كرتا ہو، اور وہ سفارشى اس سے مانگتا ہے تو وہ يا تو رغبت، اور يا ڈرتے ہوئے يا پھر شرم وحيا كرتے ہوئے، يا پھر مودت و محبت كرتے ہوئے اس كى حاجت و ضرورت پورى كر ديتا ہے.

ليكن اللہ تعالى كے ہاں اس وقت تك كوئى سفارش كر ہى نہيں سكتا جب تك اللہ تعالى اسے سفارش كى اجازت نہ دے، اور پھر سفارشى كرتا بھى وہ كچھ ہے جو اللہ چاہے، اور سفارشى كى سفارش اللہ تعالى كى اجازت اور حكم سے ہو گى، اس ليے سب حكم اللہ تعالى ہى كے ليے ہے.

اور بہت سے گمراہ لوگوں كا يہ كہنا كہ: يہ مجھ سے اللہ تعالى كے ہاں زيادہ قريب ہے، اور ميں اللہ تعالى سے دور ہوں، ميرے ليے اس واسطے كے بغير اللہ تعالى كو پكارنا ممكن ہى نہيں، اور اس طرح كى اور مشركوں جيسى باتيں كرنا، حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى تو فرما رہا ہے:

اور جب ميرے بندے آپ سے ميرے متعلق دريافت كريں تو ( كہہ ديجئے ) يقينا ميں قريب ہوں، جب پكارنے والا مجھے پكارتا ہے تو ميں اس كى پكار كو قبول كرتا ہوں البقرۃ ( 187 ).

اور صحيح بخارى ميں ہے صحابہ كرام رضوان اللہ اجمعين ايك سفر ميں تھے اور وہ بلند آواز سے تكبيرں كہہ رہے تھے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے لوگو! اپنے آپ پر نرمى كرو، كيونكہ كسى بہرے اور غائب كو نہيں پكار رہے، بلكہ سننے والے اور قريب اللہ تعالى كو پكار رہے ہو.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ميں سے ہر ايك كو يہ كہنے كا حكم ديا :

ہم صرف تيرى ہى عبادت كرتے ہيں اور تجھ سے ہى مدد مانگتے ہيں الفاتحۃ ( 5 ).

اور اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجيد ميں يہ خبر ديتے ہوئے فرمايا كہ مشركين كہتے ہيں:

﴿ ہم تو ان كى عبادت صرف اس ليے كرتے ہيں كہ يہ ( بزرگ ) اللہ كے قرب تك ہمارے رسائى كرا ديں الزمر ( 3 ).

پھر اس مشرك كو يہ كہا جائے كہ: جب تم اسے پكارو گے تو اگر تمہارا يہ خيال ہے كہ يہ تمہارے حال كو زيادہ جانتا ہے، اور آپ كے سوال كو پورا كرنے كى زيادہ قدرت ركھتا ہے، يا تم پر زيادہ رحم كر سكتا ہے، يہ تو جہالت اور گمراہى اور كفر ہے.

اور اگر تم يہ جانتے ہو كہ اللہ تعالى زيادہ علم ركھنے والا، اور يا قدرت ركھنے والا اور زيادہ رحم كرنے والا ہے، تو پھر تم نے اللہ تعالى سے سوال كرنے كى بجائے كسى اور سے كيوں سوال كرنا شروع كرديا؟

كيا آپ نے بخارى وغيرہ كى مندرجہ ذيل حديث نہيں سنى؟

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں ہر معاملہ ميں استخارہ كرنا اس طرح سكھاتے جس طرح قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديا كرتے تھے...

اور اگر تمہيں يہ علم ہے كہ وہ بزرگ تم سے زيادہ اللہ تعالى كے قريب ہے، اور اللہ تعالى كے ہاں تم سے زيادہ شان و مرتبہ ركھتا ہے، يہ بات تو حق اور صحيح ہے، ليكن اس حق كے ساتھ باطل چاہا گيا ہے، كيونكہ جب وہ آپ سے سے زيادہ قريب ہے، اور آپ سے زيادہ مرتبہ اور درجہ ركھتا ہے تو اس كا معنى يہ ہوا كہ اسے اللہ تعالى اسے آپ سے زيادہ اجروثواب دےگا، اس كا معنى يہ نہيں كہ جب آپ اسے پكاريں گے تو اللہ تعالى تيرى حاجت اور ضرورت اس سے زيادہ پورى كرے گا جب آپ اللہ تعالى كو پكارتے اور اس سے سوال كرتے.

مثال كے طور پر زيادتى اور ظلم و عدوان كى بنا پر اگر آپ سزا اور دعا رد ہونے كے مستحق ہيں تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور صالح اور نيك شخص اور كوئى بزرگ اس ميں مدد نہيں كرتا جسے اللہ تعالى ناپسند كرتا ہو، اور ايسى اشياء ميں وہ كوشش نہيں كرتا جو اللہ تعالى كو ناراض كرے اور غصہ دلائے، اور اگر ايسا نہيں تو پھر اللہ تعالى رحمت اور قبول كے زيادہ لائق ہے. اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى لابن تيميۃ ( 27 / 72 - 75 ).

ہم سوال كرنے والے بھائى كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ سابقہ حوالہ جات كو ديكھ كر مزيد تفصيل سے مطالعہ ضرور كرے.

ماخذ: الاسلام سوال وجواب