جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

مدينہ جانے والوں كے ہاتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كا حكم كيا ہے ؟

سوال

حجاج كے ساتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ غير مشروع فعل ہے، ايسا فعل قرون فاضلہ ميں سے نہيں، اور نہ ہى عقلمند مسلمانوں كا فعل رہا ہے؛ كيونكہ كسى بھى جگہ سے ہر ايك كے ليے نبى اكرم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كرنا ممكن ہے، اور اللہ تعالى نے اس سلام كو اپنے فرشتوں كے ذريعہ جن كو اس عظيم كام كى ذمہ دارى سونپى ہے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر پہنچانے كى ذمہ دارى لى ہے.

تو اس بنا پر جو شخص بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام بھيجتا ہے اور وہ كسى بھى جگہ ميں ہو يہ سلام يقنيا پہنچ جاتا ہے، تو پھر مدينہ الرسول كى زيارت كرنے والے كو ايسى تكليف كيوں دى جائےكہ وہ نبى عليہ السلام پر سلام پڑھ دے، اور اس كا بھى علم نہيں كہ وہ پہنچے يا نہ پہنچے، اور يہ بھى علم نہيں كہ اسے ياد رہے يا بھول جائے ؟

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى كے كچھ ايسے فرشتے ہيں جو زمين ميں گھوم رہے ہيں وہ ميرى امت كا سلام مجھ تك پہنچاتے ہيں "

سنن نسائى حديث نمبر ( 1282 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1664 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنے گھروں كو قبريں مت بناؤ اور ميرى قبر كو ميلہ گاہ نہ بناؤ، اور مجھ پر درود بھيجا كرو كيونكہ تم جہاں بھى ہو تمہارا درود مجھ تك پہنچ جاتا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2042 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7226 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ عبد الرحمن بن ناصر البراك ـ جو كہ امام محمد بن سعود اسلامى يونيورسٹى كے پروفيسر ہيں ـ حفظہ اللہ كا كہنا ہے:

مدينہ كا سفر كرنے والے كے ہاتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كى كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى، اور نہ ہى يہ سلف صالحين صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم كى عادت ميں سے تھا، اور نہ ہى تابعين كى عادت تھى اور اسى طرح اہل علم بھى سلام نہيں بھيجا كرتے تھے، اور نہ ہى ان ميں سے كسى ايك سے بھى يہ منقول نہيں؛

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كى امت كا سلام اور درود ان تك پہنچايا جاتا ہے، جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث ميں ہے:

" تم اپنے گھروں كو قبروں مت بناؤ، اور ميرى قبر كو ميلہ گاہ نہ بناؤ، اور مجھ پر درود بھيجو كيونكہ تمہارا درور مجھ تك پہنچا ديا جاتا ہے تم جہاں بھى ہو"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2042 ).

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:

" كيونكہ تمہارا سلام مجھ تك پہنچ جاتا ہے تم جہاں بھى ہو"

مسند ابو يعلى حديث نمبر ( 469 ).

تو اس بنا پر: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنا بدعت ہے، بلكہ ميت كو بھى سلام بھيجنا مشروع نہيں، بلكہ ميت كو بھى وہ ہى سلام كرے گا جو قبر كى زيارت كرے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اہل بقيع كى زيارت كرتے اور ان كے ليے دعاء كرتے، اور اپنے صحابہ كرام كو يہ تعليم ديتے كہ جب وہ قبروں كى زيارت كريں تو انہيں كيا كہنا چاہيے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" السلام عليكم اہل الديار من المؤمنين والمسلمين، و انا ان شاء اللہ للاحقون، اسئل اللہ لنا و لكم العافيۃ "

اے مومن اور مسلمان قبروں والو تم پر سلامتى ہو، يقينا ان شاء اللہ ہم بھى تم سے ملنے والے ہيں، ميں اللہ تعالى سے تمہارے اور اپنے ليے عافيت كا طلبگار ہوں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 975 ).

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:

" تم يہ كہو:

السلام عليكم اہل الديار من المؤمنين و المسلمين، و يرحم اللہ المستقدمين منا و المستاخرين، و انا ان شاء اللہ بك للاحقون "

اے مسلمان اور مومن گھروں ( قبروں ) والو تم پر سلامتى ہو، اور اللہ تعالى ہم ميں سے پہلے چلے جانے والوں اور بعد ميں جانے والوں پر رحم كرے او رہم بھى ان شاء اللہ تمہارے ساتھ آ كر ملنے والے ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 974 ).

بلكہ غائب شخص كى جانب سے زندہ كو سلام پہنچايا جاتا ہے.

مقصد يہ ہوا كہ: اللہ تعالى نے اس امت پر آسانى فرمائى ہے كہ وہ اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود اور سلام بھيجيں، اور زمين ميں كسى بھى جگہ ميں كثرت سے درود و سلام پڑھيں، حديث ميں وارد ہے كہ اللہ تعالى نے كچھ فرشتے مقرر كر ركھے ہيں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كى قبر ميں امت كى جانب سے ان كا درود و سلام ان تك پہنچاتے ہيں.

اللہ تعالى ہمارے نبى پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. واللہ اعلم.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس كے ساتھ ہم يہ بھى كہتے ہيں كہ:

اگر آپ نے دنيا كے آخرى كونے ميں بيٹھ كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام پڑھا تو وہ بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر پہنچ جائيگا؛ كيونكہ اللہ تعالى نے كچھ فرشتے مقرر كر ركھے ہيں جو زمين ميں گھوم پھر رہے ہيں جب كوئى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام پڑھتا ہے تو وہ يہ سلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر كى طرف نقل كر ديتے ہيں.

چنانچہ اگر ہم يہ كہيں كہ: اللہم صلى اللہ و سلم على رسول اللہ " تو ہمارا سلام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك نقل كر ديا جائيگا، اور آپ نماز ميں يہ كہتے ہيں:

السلام عليك ايہا النبى و رحمۃ اللہ و بركاتہ "

اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ پر سلامتى ہو، اور اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى بركت نازل ہو.

تو يہ سلام نبى كريم صلى اللہ عليہ تك نقل ہو جاتا ہے...

ميں نےبعض لوگوں كو مدينہ ميں يہ كہتے ہوئے سنا ہے:

ميرے والد نے مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام كرنے كى وصيت كرتے ہوئےكہا تھا:

ميرى جانب سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كہنا.

جو كہ غلط ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم زندہ نہيں كہ ان تك زندہ شخص كى سلام نقل كى جائے، پھر جب آپ كا والد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كرتا ہے تو اس كى يہ سلام تو آپ سے زيادہ بااعتماد اور زيادہ قدرت ركھنے والے نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو پہنچا دى ہے جو كہ فرشتے ہيں.

تو پھر اس كى كوئى ضرورت نہيں، اور ہم كہتے ہيں:

آپ اپنى جگہ ميں ہى، زمين ميں جہاں بھى ہوں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام پڑھيں تو وہ بہت جلد اور احسن اور زيادہ بااعتماد طريقے سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك پہنچ جائيگا.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 23 / 416 - 417 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب