جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

عقد نكاح كے بعد والد خاوند كے ساتھ بيٹھنے سے روكتا ہے

70531

تاریخ اشاعت : 03-06-2012

مشاہدات : 4878

سوال

ميرا ايك لڑكى كے ساتھ عقد نكاح ہو چكا ہے، اور مالى حالت كى بنا پر ايك سال كے بعد رخصتى طے پائى ہے، ليكن لڑكى كا والد لڑكى سے خلوت نہيں كرنے ديتا اور كچھ دير كے ليے بھى ہميں عليحدہ بيٹھ كر بات چيت كرنے يا بيٹھنے بھى نہيں ديتا، كيا ميرے سسر كے ليے حلال ہے كہ وہ رسم و رواج كى بنا پر مجھے بيوى كے ساتھ خلوت كرنے اور بيٹھنے سے منع كرے، اور مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عقد نكاح كے تين اركان ہيں:

ايجاب و قبول اور ولى كى موافقت.

ايجاب يہ ہے كہ: دو عقد كرنے والوں ميں سے كسى ايك كى جانب سے صادر ہونے والى ايسى كلام جس سے وہ عقد كرنا چاہيں، اور اس كا نام ايجاب اس ليے ركھا گيا ہے كہ اسى بنا پر التزام كو وجود ہوا ہے.

اور قبول يہ ہے كہ: دوسرى طرف سے ايسى كلام صادر ہو جو پہلے فريق كى جانب سے صادر ہونے والى كلام كو قبول كرنے اور اس كى موافقت پر دلالت كرتى ہو، اسے قبول كا نام اس ليے ديا گيا ہے كہ پہلے كے التزام سے اس ميں رضامندى پائى جاتى ہے.

اس ليے اگر يہ ايجاب و قبول بيوى كى موجودگى اور اس كى رضامندى سے ہو تو عقد نكاح ہو جائيگا، اور وہ عورت اس شخص كى بيوى بن جائيگى، اس طرح وہ شخص اس عورت كا ايجاب و قبول كے بعد خاوند بن جائيگا، اس عقد نكاح كے نتيجہ ميں درج ذيل شرعى اثرات مرتب ہونگے:

اول:

خاوند اور بيوى كا ايك دوسرے سے لطف اندوز ہونا اور استمتاع كرنا.

دوم:

اگر بيوى سے دخول كر ليا يا پھر اس كے ساتھ شرعى خلوت ہو گئى جس ميں جماع كرنا ممكن تھا يا پھر دخول يا خلوت سے قبل فوت ہو گيا تو عقد نكاح ميں مقرر كيا گيا پورا مہر ادا كرنا واجب ہوگا.

اور اگر عقد نكاح كے بعد دخول سے قبل يا پھر خلوت كيے بغير طلاق دے دى تو بيوى كو مقرر كيا گيا آدھا مہر ادا كرنا ہوگا.

ليكن اگر عقد نكاح ميں مہر مقرر نہيں كيا گيا تو پھر دخول كى صورت ميں يا خاوند كے فوت ہو جانے يا شرعى خلوت ہو جانے كى صورت ميں بيوى كو مہر مثل ادا كرنا ہو گا، يعنى اس عورت كى بہنوں اور پھوپھى كى بيٹيوں جتنا مہر ادا كرنا ہو گا.

سوم:

خاوند كے ذمہ بيوى كا نان و نفقہ اور رہائش مہيا كرنا اس صورت ميں واجب ہوگا جب بيوى سے دخول كر ليا جائے، كيونكہ يہ اشياء بيوى سے استمتاع كے عوض ميں ہيں اور اس ليے كہ بيوى اس صورت ميں خاوند كے ماتحت ہو جاتى ہے.

چہارم:

دخول اور شرعى خلوت ہو جانے كى صورت ميں اولاد كى نسبت خاوند كى طرف ثابت ہوگى.

پنجم:

اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك بھى فوت ہو جائے تو ايك دوسرے كے وارث بنيں گے، چاہے بيوى سے دخول ہوا ہو يا دخول نہ ہوا ہو.

ششم:

سسرالى حرمت ثابت ہو جائيگى، يعنى بيوى پر خاوند كى اصل اور فرع اور اسى طرح بيوى كى اصل اور فرع خاوند پر حرام ہو جائيگى، جس كى تفصيل معروف ہے.

ہم اوپر جو كچھ بيان كر چكے ہيں اس سے سوال كا جواب بھى معلوم ہو جاتا ہے كہ: خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كے ليے عقد نكاح سے ہى ايك دوسرے سے مباشرت و بوسہ لينا اور خلوت وغيرہ سے استمتاع كرنا ثابت ہو جائيگا.

سوال نمبر ( 74321 ) اور ( 13886 ) كے جوابات ميں عقد نكاح كرنے كے بعد ان مباحات كا بيان ہوا ہے جو خاوند كے ليے جائز ہيں چاہے بيوى سے دخول نہ بھى ہوا ہو، آپ ان سوالات كا مطالعہ كر ليں.

ليكن رخصتى كے اعلان اور رخصتى سے قبل عورت كے ولى كے ليے جائز ہے كہ وہ شرعى خلوت ـ يعنى دروازے بند كر كے اور پردہ لٹكا كر اور بالاولى جماع ـ سے سختى كے ساتھ منع كرے، كيونكہ رخصتى كے اعلان اور رخصتى سے قبل دخول ميں بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں.

كيونكہ ہو سكتا ہے خاوند فوت ہو جائے، يا پھر طلاق ہو جائے، اور رخصتى سے قبل ہى عورت حاملہ ہو يا پھر اس كى بكارت جاتى رہے جس سے برے اثرات مرتب ہونگے.

سوال نمبر ( 3215 ) كے جواب ميں اس مسئلہ كى تفصيل پائى جاتى ہے آپ اس كا مطالعہ كر ليں.

اس ليے جب ان خرابيوں كے ساتھ رختصى اور خاوند كے گھر منتقل ہونے سے قبل اس طرح كے امور اكثر طور پر ہونے والى سستى و كاہلى بھى شامل ہو جائے، اور اس كے ساتھ ساتھ لوگوں كى نظر اور وہ عرف جو بيوى كى رخصتى كے بعد ہى اس طرح كے تعلقات قبول كرتا ہے، تو يہ امر عزت و ناموس اور نسب كى حفاظت كے ليے ايك معتبر امر شمار ہوگا.

اور خاوند كو چاہيے كہ وہ اس كى قدر كرے، اور اپنے جذبات سے نہيں بلكہ عقل سے سوچے، اور اسے اس معاملہ كے نتيجہ ميں ہونے والے اثرات كا علم بھى ركھنا چاہيے كہ ہو سكتا وہ فوت ہو جائے يا طلاق ہو جائے تو پھر كيا ہوگاـ اور يقيناً وہ اپنى بيٹى كے ليے ايسا پسند نہيں كريگا، تو پھر لوگ بھى اپنى بيٹيوں كے ليے ايسى چيز پسند نہيں كرتے.

ہمارى رائے تو يہى ہے كہ اس كا بہتر اور درميانہ حل يہى ہے كہ اس ميں نہ تو تشدد كيا جائے اور نہ ہى تساہل سے كام ليا جائے بلكہ ميانہ روي اختيار كى جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب