جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

خاوند بيوى سے قرض لے كر اپنے والدين كو اشياء خريدنے كے ليے ديتا ہے

72841

تاریخ اشاعت : 22-05-2013

مشاہدات : 4280

سوال

ايسے خاوند كے متعلق شريعت كى رائے كيا ہے جو اپنا مال اپنے گھر اور خاندان والوں كے دے كہ وہ غير اساسى اشياء كى خريدارى كريں، حالانكہ خود اس پر قرض ہے، اور وہ اپنا قرض ادا كرنے كے ليے بيوى سے قرض ليتا رہتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اكثر لوگ سوال كرتے وقت يہ كہتے ہيں كہ: اس ميں شريعت يا دين كى رائے كيا ہے، ان الفاظ كے معانى صحيح نہيں لہذا مسلمان شخص كے ليے ايسے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرنا ہى اولى و بہتر ہے.

شيخ بكر ابو زيد حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" غلط قسم كى نئى پيدا شدہ اصطلاحات " دين كى رائے " جيسے الفاظ شامل ہيں، رائے اساسى طور پر تدبر اور تفكر پر مبنى ہے، اور ان لوگوں كا قول " دين كى رائے " اور اسلام كى رائے " اور شريعت كى رائے " جيسے الفاظ بھى اسى ميں شامل ہيں، اور يہ ان الفاظ ميں سے ہيں جو چودھويں صدى ہجرى كے آخر ميں شائع و مشہور ہوئے ہيں، اور شرعى طور پر ان كا اطلاق مرفوض ہے؛ كيونكہ رائے تو صحيح اور خطا دونوں ہو سكتى ہيں، اس ليے اسے اللہ تعالى نے جو كتاب اللہ اور سنت رسول ميں جو اللہ نے فيصلے كيے ہيں پر اطلاق كرنا ممنوع ہے، اسے تو دين اسلام كہا جائيگا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

يقينا اللہ تعالى كے ہاں دين اسلام ہى ہے .

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

اور كسى بھى مومن مرد اور مومن عورت كے شايان شان نہيں كہ جب اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كوئى فيصلہ كر ديں ت وانہيں اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا الاحزاب ( 36 ).

اس ليے بندوں ميں اللہ تعالى كے قوانين و تشريع كو اللہ كا حكم اور اس كا امر، اور اس كى نہى اور فيصلہ كہا جائيگا، اور جو ايسا نہيں اسے رائے كہا جائيگا، اور رائے ميں غلطى اور صحيح دونوں كا گمان ہوتا ہے.

ليكن اگر كوئى حكم اجتھاد سے صادر ہوا ہو ت واسے دين كى رائے نہيں كہا جائيگا، بلكہ اسے مجتھد يا عالم دين كى رائے كہا جائيگا؛ كيونكہ اس ميں اختلاف ہے اور دو يا مختلف اقوال ميں سے ايك ہى حق ہوگا سب نہيں.

اس كے متعلق آپ شيخ محمد بن ابراہيم شقرۃ كى كتاب " تنوير الافھام لبعض مفاھيم الاسلام " ( 61 - 73 ) كا مطالعہ كريں. انتہى مختصرا

ديكھيں: معجم المناھى اللفظيۃ ( 223 - 224 ) طبعہ اول.

دوم:

اولاد كے ليے اپنے والدين پر خرچ كرنا واجب ہے، اور يہ وجوب كتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے.

مزيد تفصيل آپ سوال نمبر ( 111892 ) ميں ديكھيں.

والدين كے ليے اولاد پر نفقہ واجب ہونے كى كچھ شروط ہيں جن ميں يہ بھى شامل ہے كہ: بيٹا خرچ كرنے پر قادر ہو، اور والد عاجز يا فقر يا كمائى نہ كر سكنے كى بنا پر ضرورتمند ہو.

اس خاوند كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اگر وہ اپنے ضرورتنمد والدين پر ضرورى اخراجات كى مد ميں خرچ كرتا ہے تو اس كا اسے اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں اجر عظيم حاصل ہوگا، چاہے اس كے ليے اسے مال كہيں سے ادھار بھى لينا پڑے ليكن اگر اس كے والدين ضرورى نفقہ كے محتاج نہيں، اور وہ ان كى غير ضرورى اشياء خريدنے كے ليے ان پر خرچ كر رہا ہے تو اس بيٹے پر اپنے آپ پر متنبہ ہونا واجب ہے، اور اس كے ليے اسے بغير كسى ضرورت و حاجت كے قرض نہيں لينا چاہيے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں قرض كو بہت اہميت حاصل ہے، اور پھر صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" شہيد كو ہر چيز بخش دى جاتى ہے ليكن قرض نہيں معاف كيا جاتا "

تو پھر ايسا شخص جو اللہ كى راہ ميں قتل و شہيد ہى نہيں ہوا اور اسے عام موت آئى اس كے متعلق كيا ہو گا؟!

جى ہاں اگر اس كے پاس مال زائد ہو اور وہ اپنے والدين كے ليے مباح اور غير ضرورى اشياء خريد كر انہيں وسعت دينا چاہتا ہو تو پھر وہ والدين كے ساتھ حسن سلوك اور اپنى جان كے ساتھ برا سلوك نہيں كر رہا.

ليكن اگر وہ اپنے مال كى بجائے كسى دوسرے يعنى بيوى وغيرہ كا مال صرف كرے تو پھر وہ اپنے ساتھ اچھا نہيں كر رہا كيونكہ اس نے اپنے آپ پر اتنا بوجھ ڈالا ہے جس كا وہ متحمل نہ تھا.

اسے چاہيے كہ وہ اپنے والدين سے بڑے بہتر اور اچھے انداز اور رويہ ميں معذرت كر لے كہ وہ جو كچھ چاہتے ہيں انہيں دينے كى استطاعت و طاقت نہيں ركھتا، اور وہ والدين سے وعدہ كرے كہ اللہ جب بھى اسے اپنى اور بيوى بچوں كى ضروريات سے زائد مال دےگا تو وہ انہيں ضرور دےگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر كبھى تو ان سے بےتوجہى كر ہى لے، اپنے رب كى كسى رحمت كى تلاش كى وجہ سے، جس كى تو اميد ركھتا ہو تو ان سے وہ بات كہہ جس ميں آسانى ہو الاسراء ( 28 ).

اس آيت كى تفسير ميں ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى جب آپ كے اقرباء و رشتہ دار اور جن كے بارہ ميں ہم نے آپ كو دينے كا حكم ديا وہ تجھ سے مانگيں، اور آپ كے پاس انہيں دينے كے ليے كچھ نہ ہو اور آپ نفقہ نہ ہونے كى بنا پر ان سے اعراض كر ليں " تو انہيں آسان سى بات كہو " يعنى ان سے آسانى كا وعدہ كر لو، كہ اگر اللہ كا رزق آيا تو ان شاء اللہ ہم تم سے صلہ رحمى ضرورى كريں گے " انتہى

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 52 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب