جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ایک فیملی سیر و تفریح کے بعد عمرہ کرنا چاہتی ہے، تو کیا انہیں زکاۃ دی جائے؟

78592

تاریخ اشاعت : 02-10-2015

مشاہدات : 2405

سوال

سوال: مالی طور پر درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی فیملی گرمیوں کی چھٹیوں میں طائف سیر و تفریح کیلئے جانا چاہتی ہے، اور پھر وہ مکہ جا کر عمرہ ادا کریں گے، ان کے پاس اپنے اس سفر کیلئے رقم نہیں ہے، تو انہیں زکاۃ دینے کا کیا حکم ہے؟ اور اس کی دلیل کیا ہے؟ اور اگر جائز ہے تو کتنی مقدار میں انہیں مال دینا چاہیے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے زکاۃ کے مصارف اپنے اس فرمان میں بیان کر دیے ہیں:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبہ:60]

اور ان مصارف کا بیان پہلے سوال نمبر: (6977) میں گزر چکا ہے۔

نیز فقراء اور مساکین کو زکاۃ میں سے صرف اتنا ہی دیا جا تا ہے جن سے وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ  کی شرعی طور پر واجب ضروریات بغیر کسی اسراف، فضول خرچی ، اور پیسہ اڑائے بغیر پوری کر سکیں۔

شرعی طور پر واجب ضروریات سے مراد :

زندگی گزارنے کیلئے بنیادی ضروریات ہیں، مثلاً: رہائش، کپڑے، کھانا، پینا، اور علاج وغیرہ۔

چنانچہ سیر و سیاحت کیلئے سفر زکاۃ وصول کرنے کا سبب بننے والی بنیادی ضروریات میں شامل نہیں ہے،  اور زکاۃ دی ہی اسی وقت جاتی ہے جب کسی ضرورت کا تعلق بنیادی ضروریات زندگی سے ہو۔

لہذا ان لوگوں کو فقراء شمار کر کے زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح انہیں مسافر کی مد سے بھی زکاۃ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ زکاۃ کا مستحق مسافر وہ ہوتا ہے جو محوِ سفر  ہو اور اس کے پاس اتنی رقم نہ ہو جس کے ذریعے اپنی منزل تک پہنچ سکے، لیکن یہ لوگ ابھی تک اپنے علاقے میں ہی ہیں، اس لئے انہیں مسافر نہیں کہا جا سکتا ہے۔

اس بات کا پہلے بیان سوال نمبر: (35889) میں گزر چکا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب