جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

حصص ميں شركت كے ليے قرض حاصل كرنا

82011

تاریخ اشاعت : 17-06-2007

مشاہدات : 7265

سوال

حصص ميں شراكت كرنے كے ليے قرض حاصل كرنے والے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

انسان كو قرضہ لينے ميں وسعت اختيار نہيں كرنى چاہيے، بلكہ اسے چاہيے كہ بغير كسى ضرورت اور حاجت كے قرضہ نہ لے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرض سے پناہ مانگا كرتے تھے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر نماز ميں درج ذيل دعا پڑھا كرتے تھے:

" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ "

اے اللہ ميں تيرى پناہ پكڑتا ہوں گناہ سے اور قرض سے "

تو ايك كہنے والے نے عرض كيا:

آپ قرض سے اتنى كثرت كے ساتھ پناہ كيوں مانگتے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلا شبہ جب آدمى مقروض ہو جاتا ہے ( يعنى جب قرض ليتا ہے ) تو بات چيت ميں جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ كرتا ہے تو وعدہ خلافى كرتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 833 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرض كى ادائيگى كے ليے بھى دعا كيا كرتے تھے:

آپ كى دعاء ميں يہ دعا شامل تھى:

" اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِ "

اے اللہ آسمان و زمين كے پروردگار، اور عرش عظيم كے مالك، ہمارے اور ہر چيز كے رب، دانے اور گٹھلى كو پھاڑنے والے، اور توراۃ اور انجيل اور فرقان كو نازل كرنے والے، ميں ہر چيز كے شر سے تيرى پناہ پكڑتا ہوں جس كى پيشانى تو پكڑے ہوئے ہے، اے اللہ تو ہى اول ہے تجھ سے پہلے كوئى چيز نہيں، اور ہى آخر ہے تيرے بعد كوئى چيز نہيں، اور تو ہى ظاہر ہے تيرے اوپر كوئى چيز نہيں، تو ہى باطن ہے تيرے ورے كوئى چيز نہيں، ہم سے قرض ادا كردے، اور ہميں فقر و فاقہ سے غنى كر دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4888 ).

اور قرض اتنى خطرناك چيز ہے كہ معركہ ميں فى سبيل اللہ شہيد ہونے والے شخص كا بھى قرض معاف نہيں ہوتا.

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" شہيد كے ليے قرض كے علاوہ باقى ہر گناہ بخش ديا جاتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1886 ).

اور امام نسائى رحمہ اللہ نے محمد بن جحش رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيٹھے ہوئے تھے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارك آسمان كى طرف اٹھايا اور پھر اپنى ہتھيلى اپنى پيشانى پر ركھى اور فرمانے لگے:

سبحان اللہ! كتنى سختى اور تشديد نازل كى گئى ہے ؟

تو ہم خاموش رہے اور سہم گئے، اور جب دوسرے دن ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى سختى اور شدت تھى ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے! اگر كوئى شخص اللہ كى راہ ميں قتل كر ديا جائے، پھر اسے زندہ كيا جائے، پھر قتل كر ديا جائے، اور پھر زندہ كيا جائے اور پھر قتل كر ديا جائے، اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت ميں داخل نہيں ہو گا، حتى كہ اس كا قرض ادا نہ كر ديا جائے"

سنن نسائى حديث نمبر ( 4605 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 4367 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ان اور اس كے علاوہ دوسرے دلائل كى بنا پر انسان كو چاہيے كہ وہ قرض كے حصول ميں وسعت اختيار نہ كرے، اور وہ ضرورت اور ضرورت كے بغير بھى قرض ليتا پھرے، يا پھر تجارت ميں شامل ہونے كے ليے بہت بڑى رقم بطور قرض ليتا پھرے، اور اسے علم بھى نہ ہو كہ آيا وہ اس تجارت ميں كامياب ہوگا يا نہيں، اور اس كا تصرف كيا ہو گا ؟ اور اتنى بڑى رقم كى اپنى تنخواہ سے ادائيگى كس طرح كريگا جو اس كى ادائيگى كے ليے كافى نہيں ہے؟!

اس ليے عقلمند شخص اتنے پر ہى كفائت كر ليتا ہے جو اللہ تعالى نے اسے رزق حلال ديا ہے، اور وہ ايسے شخص كو نہيں ديكھتا جو دنياوى امور اور مال ميں اس سے بڑھ كر اور اوپر ہے، بلكہ وہ تو اپنے سے نيچے اور كم مال والے شخص كى طرف دھيان ديتا ہے، اگر اس كى تنخواہ كافى نہيں ہوتى تو وہ كوئى اور كام تلاش كر لے، اللہ تعالى اسے اتنى روزى ديگا جو اس كے ليے كافى ہوگى.

ليكن وہ خيالى پلاؤ پلا كر اتنا قرض حاصل كر لے جس كى ادائيگى سے ہى قاصر ہو تو اسے ايسا كرنا زيب نہيں ديتا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كمپنيوں كے ساتھ شراكت كرنے، اور حصص كى خريدارى كے ليے قرض حاصل كرنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" كمپينوں ميں حصص كى شراكت كرنے ميں نظر ہے، كيونكہ ہم نے سنا ہے كہ وہ لوگ اپنے پيسے اجنبى بنكوں يا اجنبى بنكوں كے مشابہ بنكوں ميں ركھ كر اس پر نفع ليتے ہيں، اور يہ سود ميں سے ہے، اگر يہ بات صحيح ہے تو پھر ان ميں حصص ركھنا حرام، اور كبيرہ گناہوں ميں سے ايك كبيرہ گناہ ہے؛ كيونكہ سود كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے.

ليكن اگر وہ اس سے خالى ہو، اور اس ميں اور كوئى شرعى ممانعت نہ پائى جائے تو اس ميں حصص ركھنا حلال ہے.

اور ان حصص ميں لگانے كے ليے كسى شخص كا قرض حاصل كرنا سراسر بے وقوفى ہے، چاہے وہ اس كے ليے شرعى طريقہ سے قرض حاصل كرے مثلا قرض، يا صريحا سودى طريقہ پر، يا كسى حيلہ كے ساتھ سودى طريقہ سے جس ميں وہ اپنے پروردگار اور مومنوں كو دھوكہ دينے كى كوشش كرے، كيونكہ اسے تو يہ علم ہى نہيں كہ آيا وہ اس كى ادائيگى بھى كر سكے گا يا نہيں، تو پھر وہ اپنى ذمہ كو اس قرض ميں كيسے مشغول كر رہا ہے.

حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان تو يہ ہے كہ:

اور ان لوگوں كو پاكدامن رہنا چاہيے جو اپنا نكاح كرنے كى طاقت نہيں ركھتے، يہاں تك كہ اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے مالدار كر دے .

يہاں اللہ تعالى نے ان لوگوں كى راہنمائى كرتے ہوئے يہ نہيں كہا كہ وہ قرض لے ليں، حالانكہ انہيں نكاح اور شادى كرنے كے ليے مال كى ضرورت بھى ہے جو كہ مال زيادہ كرنے سے بھى زيادہ سخت ضرورت ہے.

اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى نكاح كى استطاعت نہ ركھتے والے كى بھى اس طرف راہنمائى نہيں كہ وہ قرض لے لے اور نہ ہى مہر كے ليے لوہے كى انگوٹھى بھى نہ ركھنے والے شخص كى قرض حاصل كرنے كى طرف راہنمائى كى.

اور جب يہ مسئلہ ہے تو پھر يہ اس كى دليل ہے كہ شارع نے يہ واجب اور ضرورى نہيں كيا كہ آدمى اپنا ذمہ قرضہ ميں پھنسا كر ركھے، اس ليے عقل مند شخص كو اپنے دين اور اپنى شہرت ميں زيادتى اور خرابى كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 195 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب