جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عقيقہ كى نيت ذبح كردہ ميں قربانى كا داخل ہونا اور اس كے برعكس

سوال

كيا عيد الاضحى ميں عقيقہ اور قربانى كى اكٹھى نيت كفائت كر جائيگى ؟
اور كيا عقيقہ صحيح ہو گا يا نہيں، اقرب الى السنۃ عمل بيان كر كے تعاون فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس مسئلہ ميں فقھاء كرام كے دو قول ہيں:

پہلا قول:

قربانى عقيقہ سے بھى كفائت كر جاتى ہے، حسن بصرى، اور محمد بن سيرين اور قتادہ اور احناف كا قول يہى ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت.

انہوں نے اس مسئلہ كو جمعہ اور عيد اكٹھى ہو جانے جيسا ہى شمار كيا ہے، كہ اس ميں ايك كى نماز ادا كرنا دوسرے سے كفائت كر جاتا ہے، كہ دونوں ہى خطبہ اور دو ركعتوں ميں مشترك ہيں، تو دونوں ميں ايك كو كر ليا جائے تو كفائت كر جاتا ہے، تو يہاں بھى اسى طرح ہے، كيونكہ ذبح ايك ہى ہے.

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

جس طرح اگر كوئى شخص دو ركعت نماز ادا كرے اور اس ميں تحيۃ المسجد اور سنتوں كى نيت كر لے تو ٹھيك ہے.

دوسرا قول:

قربانى عقيقہ سے كفائت نہيں كريگى، مالكيہ، اور شافعيہ كا قول اور امام احمد سے دوسرى روايت ہے.

ان كا كہنا ہے كہ قربانى اور عقيقہ دو ذبح ہيں اور ان كے اسباب بھى مختلف ہيں، اس ليے ايك دوسرے سے كفائت نہيں كريگا، جس طرح اگر كسى پر حج تمتع اور فديہ كا ذبح كرنا جمع ہو جائے تو ايك ذبح كرنا كفائت نہيں كريگا.

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

قربانى اور عقيقہ ہر ايك ميں خون بہانا مقصود ہے؛ كيونكہ يہ دونوں شعار ايسے ہيں جن كا مقصد خون بہانا ہے، اس ليے ايك دوسرے كے قائم مقام نہيں ہو سكتا، اور كفائت نہيں كر سكتا.

ابن حجر مكى شافعى رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

قربانى كے ايام ميں قربانى اور عقيقہ كى نيت سے ايك ہى جانور ذبح كرنے سے كيا دونوں مقصد حاصل ہو جائينگے ؟

تو ان كا جواب تھا:

" جس پر اصحاب كى كلام دلالت كرتى ہے اور اس پر ہم برسوں سے چل رہے ہيں وہ يہ ہے كہ اس ميں تداخل ـ يعنى ايك دوسرے ميں داخل ـ نہيں ہے؛ كيونكہ ہر ايك عقيقہ اور قربانى كا مقصد لذاتہ سنت ہے، اور ہر ايك كا عليحدہ سبب ہے جو دوسرے كے سبب سے مختلف ہے، اور اس كا مقصد دوسرے كے مقصد كے علاوہ ہے، كيونكہ قربانى اپنے نفس كا فديہ ہے، اور عقيقہ بچے كى جانب سے فديہ ہے، كہ اس سے اس كى پرورش اور صلاح اور اس كى نيكى و شفاعت كى اميد ہے، اور تداخل كے قول ہر ايك كا مقصد فوت اور باطل ہو جاتا ہے.

چنانچہ يہ قول ممكن نہيں، كہ يہ قول اس قول جيسا ہى ہے كہ عيد اور جمعہ كے غسل جيسا ہى ہے، اور ظہر اور عصر كى سنت كے قول جيسا، اور رہا تحيۃ المسجد وغيرہ تو يہ فى ذاتہ مقصود نہيں، بلكہ يہ تو مسجد كى حرمت كى عدم ہتك كى وجہ سے ہے، اور يہ چيز دوسرى نماز كى ادائيگى سے حاصل ہو جاتا ہے، اور اسى طرح سوموار وغيرہ كا روزہ؛ كيونكہ اس كا مقصد اس دن مخصوص روزہ جيسى عبادت سے احياء ہے، اور يہ اس دن ميں كسى بھى روزہ ركھنے سے حاصل ہو جاتا ہے.

ليكن عقيقہ اور قربانى اس طرح نہيں، جس طرح اس سے ظاہر ہوتا ہے جو ميں نے مقرر كيا ہے، اور يہ واضح ہے ..... " انتہى.

ديكھيں: الفتاوى الفقھيۃ ( 4 / 256 ).

ظاہر يہى ہوتا ہے ـ واللہ تعالى اعلم ـ كہ عقيقہ اور قربانى كى نيت سے ايك جانور ذبح كرنا كفائت كر جائيگا، فضيلۃ الشيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے، اور ان كا يہ قول اور جواز كے دوسرے اقوال ہم سوال نمبر ( 106630 ) ميں بيان كر چكے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب