جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

فوت شدگان كى مرثيہ خوانى كا حكم

82357

تاریخ اشاعت : 23-04-2007

مشاہدات : 5427

سوال

فوت شدگان كى مرثيہ خوانى اور اس كے ليے اجتماع كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مرثيہ اور الرثاء يہ ہے كہ كسى شخص كى موت كے بعد آہ و بكا كى جائے اور رويا جائے اور اس كى مدح ثنائى ہو، اور اسى طرح نظم اور اشعار بنا كر پڑھنے كو بھى الرثاء اور مرثيہ خوانى كہا جاتا ہے.

ديكھيں: لسان العرب ( 147 / 309 ).

اور اس سے مراد يہ بھى ہے كہ: كسى ناپسنديدہ كام ميں پڑنے سے تكليف محسوس كرنا.

درج ذيل حديث ميں الرثاء اسى معنى ميں استعمال ہوا ہے.

سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( ليكن مسكين سعد بن خولہ ) رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو رنج اور تكليف ہوئى كہ وہ مكہ ميں فوت ہو گئے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1296 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں لكھتے ہيں:

" قولہ:

" ان كے مكہ ميں فوت ہونے كا رسول كريم صلى اللہ وسلم كو رنج اور تكليف ہوئى"

يہ زھرى رحمہ اللہ كى كلام ہے.

ديكھيں: الفائق ( 2 / 36 ).

مرثيہ كے متعلق علماء كرام كے اجمالا دو قول ہيں:

پہلا قول:

شافعيہ اور احناف كے ہاں مرثيہ ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 239 ) نھايۃ المحتاج ( 3 / 17 ).

انہوں نے استدلال كرتے ہوئے كہا ہے كہ بہت سے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے ايسا كيا ہے، اور اسى طرح بہت سے اہل علم بھى ايسا كرتے رہے ہيں.

ديكھيں: شرح المنھاج للجمل ( 2 / 215 ).

دوسرا قول:

مرثيہ كرنا مكروہ ہے، يہ شافى حضرات كا قول ہے.

ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 3 / 17 ).

انہوں نے استدلال كرتے ہوئے كہا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرثيہ سے منع فرمايا ہے.

عبد اللہ بن ابى عوفى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرثيہ كرنے سے منع فرمايا "

مسند احمد حديث نمبر ( 18659 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1592 ).

اس حديث كا دار و مدار على ابراہيم الھجرى پر جو عبد اللہ سے روايت كرتا ہے، جس كے متعلق بوصيرى نے مصباح الزجاجۃ ميں " ضعيف جدا " كہا ہے، اور سفيان ابن عيينہ، يحيى بن معين، نسائى وغيرہ نے بھى اسے ضعيف قرار ديا ہے.

اور امام بخارى رحمہ اللہ اس كے متعلق كہتے ہيں: يہ منكر الحديث ہے، اسى ليے ضعيف ابن ماجہ ميں علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى اسے ضعيف قرار ديا ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" احناف كى كتاب " الدر المختار ميں ہے كہ شعر وغيرہ كے ساتھ ميت كا مرثيہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كى مدح و ثناء ميں افراط اور مبالغہ سے كام لينا اور خاص كر اس كے جنازہ كے وقت ايسا كرنا مكروہ ہے، اور امام نووى رحمہ اللہ نے " المجموع " ميں صاحب تتمہ سے بيان كيا ہے كہ: ميت كے آباء و اجداد اور اس كے خصائل اور افعال كا ذكر كر كے مرثيہ كرنا مكروہ ہے، اولى اور بہتر يہى ہے كہ اس كے ليے استغفار اور بخشش كى دعا كى جائے.

اور حنابلہ بيان كرتے ہيں كہ:

ايسا وعظ اور تقرير يا شعر جو مصيبت كو ہيجان دے اور اسے زيادہ كرے يہ بھى نوحہ ميں شامل ہوتا ہے، يعنى اس نوحہ ميں جو شرعى طور پر ممنوع ہے، شيخ تقى الدين رحمہ اللہ كا يہى كہنا ہے " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 98 ).

اور " الفروق " ميں قرافى رحمہ اللں نے مرثيہ كو چار قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے كہا ہے:

مرثيہ خوانى كى اباحت اور مرے ہوئے بادشاہوں اور معين افراد كا مرثيہ كہنے والے شاعروں كو فاسق نہ كہنے كا معاملہ مطلق نہيں ہے، چاہے يہ لوگوں كے مابين مشہور ہے، بلكہ حق اور انصاف تو يہ ہے كہ مرثيہ چار قسموں ميں منقسم ہوتا ہے:

1 - حرام اور كبيرہ گناہ.

2 - حرام اور صغيرہ گناہ.

3 - مباح.

4 - مندوب.

حرام اور كبيرہ كا ضابطہ يہ ہے كہ: ہر وہ كلام جو نفس ميں يہ اعتقاد اور سوچ پيدا كرے كہ اس قضاء ميں اللہ رب العزت كا فيصلہ صحيح نہ تھا يہ ظلم ہے، اور اس شخص كى موت ميں كوئى مصلحت نہ تھى، بلكہ عظيم فساد ہے، تو اس طرح اس كلام كو سن كر سامعين كا ايسا اعتقاد بنا لينا حرام اور كبيرہ گناہ ہے، چاہے يہ مرثيہ نظم ميں ہو يا نثر ميں.

مثلا كوئى شاعر اپنى كلام ميں يہ بات كہے:

وہ شخص فوت ہوگيا جس كے لشكر ميں سے ايك موت بھى تھى، اور جس سے قضاء بھى خوفزدہ تھى.

تو اس كے شعر ميں يہ كہہ كر قضاء كے ليے تعريض كى گئى ہے كہ: " جس كے لشكر ميں موت بھى شامل تھى " اس ميت كى تعظيم اور عظمت كے اعتبار سے يہ بات كہى گئى ہے، اور يہ مناسب نہيں تھا كہ منصب خلافت اس طرح كى ميت سے خالى ہوتى، اور اس طرح كے ايام پھر كب آئينگے ؟ اور اس طرح كى دوسرى كلام كہنا.

اور شعر كا دوسرا مصرعہ:

" اس سے قضاء بھى خوفزدہ تھى "

اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ ( نعوذ باللہ ) اللہ تعالى بھى اس سے خوفزدہ تھا، اور اگر يہ صريح كفر نہ بھى ہو جيسا كہ الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے تو يہ كفر صريح كے قريب ہے، اسى ليے جب شيخ عزالدين بن عبد السلام بغداد ميں خليفہ كى تعزيت كے ليے قائم كى گئى مجلس ميں حاضر ہوئے جہاں بادشاہ اور صالحين اور بڑے بڑے لوگ اور قراء اور شاعر حضرات بھى جمع تھے تو ايك شاعر نے اپنے مرثيہ ميں يہ شعر كہا:

وہ شخص مر گيا جس كے لشكر ميں موت بھى شامل تھى.

جب شيخ نے يہ شعر سنا تو اس كى تاديب كا حكم ديتے ہوئے كہا كہ اسے ادب سكھايا جائے، اور اسے قيد كر ديا جائے، اور اس كى بہت سخت سرزنش كى، اور اس كے اس مرثيہ كى قباحت ثابت كرنے ميں بہت شدت اور مبالغہ سے كام ليا، اور اس شاعر كو تعزير لگانے كے بعد بہت دير تك جيل ميں بند ركھا گيا.

پھر اس كے بارہ ميں امراء اور رؤساء كى سفارش كے بعد اس شاعر سے توبہ كروائى گئى اور اسے حكم ديا گيا كہ وہ اللہ تعالى كى مدح اور ثنا ميں ايك قصيدہ بنائے، تا كہ اللہ تعالى كى قضاء پر اعتراض والے شعر كا كفارہ بن سكے، جس ميں اس نے يہ اشارہ كيا تھا كہ اللہ تعالى بھى ميت سے خوفزدہ تھا.

اور اكثر شاعر اس طرح كے مشكل معاملات پيش آنے پر دوسروں كو اچھا لگنے اور تعجب ميں ڈالنے اور مدح كرنے كى رغبت ركھتے ہوئے اس طرح كى باتيں اكثر كر ديا كرتے ہيں، وہ ايسا معنى لے آتے ہيں جو ان سے قبل كسى نے نہيں كہا ہوتا، تو اس طرح وہ اس طرح كى كلام ميں پڑ جاتے ہيں.

مرثيہ خوانى ميں سب سے برى اور غلط قسم يہى ہے.

اور حرام صغيرہ كا ضابطہ يہ ہے كہ: ہر وہ كلام چاہے وہ اشعار ميں ہو يا نثر ميں وہ پہلى قسم كے درجہ تك نہ پہنچى ہو، ليكن وہ ميت كے اہل و عيال سے تسلى اور صبر كو دور كر كے ان ميں افسوس اور غم ميں ہيجان پيدا كر دے، حتى كہ قلت صبر و ضجر كى بنا پر اپنے آپ كو تكليف دينے لگيں اور ماتم كريں، اور ہو سكتا ہے وہ اس كلام كو سن كر اپنے گريبان چاك كر ليں اور نااميد ہو جائيں، اور رخسار پيٹنے لگيں، تو يہ مرثيہ حرام صغيرہ گناہ ہوگا.

اور مباح مرثيہ كا ضابطہ يہ ہے كہ:

ہر وہ كلام جس ميں مندرجہ بالا دونوں قسموں ميں سے كوئى چيز بيان نہ ہوئى ہو، بلكہ ميت كا دين بيان ہوا ہو، اور يہ كہ وہ اپنے اچھے اور صالح اعمال كا بدلہ حاصل كرنے كے ليے اور سعادت مند لوگوں كا پڑوس حاصل كرنے كے ليے اس دنيا فانى سے انتقال كر گيا ہے، اور اسے بھى اسى طرح موت آئى ہے جو عام لوگوں كو آتى ہے، اور يہ موت كا راستہ بہت ہى ضرورى ہے، اور يہ ايسى جگہ اور چيز ہے جس ميں سارى مخلوق شريك ہے، اور ايك ايسا دروازہ ہے جس سے ہر ايك نے گزرنا ہے، تو اس طرح كى كلام سے يہ مباح اور حرمت سے خالى ہوگا.

اور مندوب مرثيہ يہ ہے كہ:

مباح قسم ميں جو اشياء بيان ہوئى ہيں اس سے زيادہ ہر وہ كلام جس ميں اہل ميت كو صبر و تحمل كى تلقين اور اجروثواب كے حصول پر ابھارا گيا ہو، اور يہ بيان ہوا ہو كہ اہل ميت كو چاہيے كہ وہ اپنے فوت شدہ شخص كو اللہ كى راہ ميں گيا ہوا سمجھيں، اور يہ اعتماد ركھيں كہ اللہ تعالى انہيں اس كا نعم البدل عطا فرمائےگا، تو يہ قسم مندوب ہوگى، اور اسى كا حكم بھى ديا گيا ہے.

عباس بن عبدالمطلب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جب وہ فوت ہوئے تو ان كے بيٹے عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى كے ليے يہ مصيبت بہت بھارى تھى تو ايك اعرابى ديہات سے آيا اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے متعلق دريافت كيا اور انہيں تلاش كر كے ان كے پاس آ كر كہنے لگا:

" آپ صبر و تحمل سے كام ليں، تو ہم بھى آپ كے ساتھ صبر كرينگے، كيونكہ رعايا كا صبر ان كے بڑے اور سردار كے صبر كے وقت ہوتا ہے.

عباس رضى اللہ تعالى عنہ كے بعد ان كا اجروثواب آپ كے ليے اجرو ثواب بہتر ہے، اور آپ كے ليے عباس سے بہتر اللہ تعالى ہے.

جب عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے اس اعرابى كا يہ مرثيہ سنا اور اس كے شعر كو بالاستيعاب ليا تو ان كى يہ عظيم تكليف اور مصيبت جاتى رہى.

يہ كلام انتہا درجہ كا مرثيہ تھى جو كہ مصيبت كو ہلكى كرنے اور غم كو ختم كر دينے والى اور قضاء كے تصرف كى محسن تھى، اور اللہ رب العزت كى حمد و تعريف بيان كرنے والى تھى، اور بہتر پہچان تھى، تو يہ خوبصورت و جمال سے پر ہے.

=

جو مرثيہ بھى آپ كے پاس آئے آپ اسے اس قانون اور قاعدے كے مطابق پركھيں، اللہ تعالى ہى زيادہ علم ركھنے والا ہے. انتہى مختصرا.

ديكھيں: الفروق ( 2 / 174 ).

تحفۃ الاحوذى ميں ہے:

" اگر يہ كہا جائے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرثيہ سے روكا ہے جيسا كہ مسند احمد اور ابن ماجہ كى حديث ميں ہے جسے امام حاكم رحمہ اللہ نے صحيح كہا ہے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمانے كے باوجود خود كيسے ايسا كام كيا ؟ ـ يعنى سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ بالا حديث ميں ـ ؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

وہ مرثيہ ممنوع ہے جس ميں ميت كى مدح ثنائى اور اس كے محاسن اور صفات اس انداز سے بيان كيے جائيں كہ غم اور تكليف ميں ہيجان پيدا ہو، اور اس سے غم كى تجديد ہو جائے، يا اس كے ليے تقريب منعقد كر كے مرثيہ پڑھا جائے، يا كثرت كے ساتھ ايسا كيا جائے.

يہاں اس حديث ميں مراد يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس بات كا رنج ہوا اور تكليف اور غم ہوا كہ ہجرت كے بعد بھى سعد رضى اللہ تعالى عنہ مكہ ميں فوت ہوئے ہيں، نہ كہ اس سے ميت كى مدح ثنائى تھى جو غم اور تكليف ميں ہيجان پيدا كرے، قسطلانى رحمہ اللہ نے ايسے ہى ذكر كيا ہے " انتہى.

مزيد تفصيل كے ليے آپ فتح البارى ( 3 / 164 - 165 ) بھى ديكھيں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا ايسے قصيدے جس ميں ميت كى مرثيہ خوانى كى گئى ہو وہ حرام نہى ميں شامل ہوتے ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جن قصائد ميں ميت كا مرثيہ بيان گيا ہو وہ حرام نہى ميں شامل نہيں ہوتے، ليكن كسى كے ليے كسى كى صفت اور تعريف بيان كرنے ميں غلو كرتے ہوئے اسے كسى جھوٹى صفت سے موصوف كرنا جائز نہيں، جيسا كہ اكثر شعراء كى عادت ہوتى ہے " انتہى.

ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن باز.

اس بنا پر مرثيہ خوانى كى تقريب منعقد كرنا، اور اس كے ليے جلسے اور اجتماع كرنا خاص كر جب اس كے ساتھ غم و حزن اور تكليف ميں ہيجان پيدا ہوتا ہو، يا پھر تقدير پر اعتراض پيدا ہو، يا ميت كو كسى جھوٹے وصف سے موصوف كيا جائے جو اس ميں نہيں پايا جاتا، اور اس طرح كے دوسرے حرام امور ممنوع ہيں.

ليكن صرف ميت كے محاسن اور اچھے اعمال بيان كرنا، اور اس ميت پر رنج و غم ظاہر كرنے ميں كوئى حرج نہيں ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ مندرجہ بالا ممنوعات وغيرہ سے خالى ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب