منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

آنكھ يا كندھے كى شكل، يا آيۃ الكرسى كنندہ سونا پہننے كا حكم

91370

تاریخ اشاعت : 26-11-2007

مشاہدات : 10241

سوال

بہت سے لوگ سونے كا ٹكڑا ايك دوسرے كو بطور ہديہ ديتے ہيں، اس پر آيۃ الكرسى، يا لفظ جلالہ ( اللہ )، يا پھر اللہ جل جلالہ كے الفاظ كنندہ ہوتے ہيں، اور ايك اور قسم بھى ہے جو كندھے يا آنكھ يا دل كى شكل ميں ہوتا ہے، يا پھر زرد موتى كى شكل ميں.
سوال يہ ہے كہ: ان ميں سے حرام كونسا ہے، اور كيوں حرام ہے ، اور اگر اس طرح كا سونا كسى مسلمان كو ہديہ ملے تو اسے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہنے جانے والے سونے پر آيۃ الكرسى يا لفظ جلالہ لكھنا مشروع نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں اس كى توہين ہے، اور ايسا كرنے ميں يہود و نصارى كى مشابہت بھى ہو سكتى ہے، كيونكہ وہ صليب كو لٹكا كر اس كى تعظيم كرتے ہيں.

ليكن انگوٹھى ميں نام لكھنے كى رخصت آئى ہے، چاہے نام لفظ جلالہ پر مشتمل ہو، مثلا عبد اللہ، اور عبد الرحمن، اور اسى طرح انگوٹھى پر كوئى جملہ مفيدہ لكھنے ميں بھى كوئى حرج نہيں، چاہے اس ميں اللہ كے نام ميں سے كوئى نام بھى آتا ہو مثلا: الحمد للہ، اور توكلت على اللہ ..... اس كے متعلق صحابہ كرام سے بہت كچھ وارد ہے، اس كى تفصيل اور كچھ مثاليں سوال نمبر ( 68805 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ ا سكا مطالعہ كر ليں.

اور مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ہمارے پاس دل كى اشكال ہيں جن پر لفظ جلالہ كنندہ ہے، جسے عرب اور غير عرب ہر جنس كے لوگ ليتے ہيں، اور ہم عرب كو يہ بات كہہ ديتے ہيں كہ اسے بيت الخلاء ميں لے جانا حرام ہے، آپ برائے مہربانى اس كى فروخت كے متعلق معلومات فراہم كريں.

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" جس زيور پر لفظ جلالہ كنندہ ہو اس كى فروخت جائز نہيں، ليكن اگر لفظ جلالہ اس سے مٹا ديا جائے تو پھر جائز ہے، پہلے بھى كميٹى كو اس طرح كا سوال ہو چكا ہے، جس كا جواب فتوى نمبر ( 2077 ) ميں ديا گيا ہے سوال درج ذيل ہے :

ہم جناب والا كو اپنى اس درخواست كے ساتھ سونے كا زيور بھى بھيج رہے ہيں جس پر لفظ جلالہ ( اللہ ) لكھا ہوا ہے، اور يہ زيور ہم مسلمانوں كى عورتيں بطور زيور زينت كے ليے استعمال كرتى ہيں، كچھ ايام قبل امر بالمعروف والنھى عن المنكر كميٹى كے بھائيوں نے ہميں بتايا كہ يہ زيور استعمال كرنا حرام ہے، كيونكہ اس پر لفظ جلالہ لكھا ہوا ہے.

ہم آپ كے علم ميں لانا چاہتے ہيں كہ يہ زيور مسلمان عورتوں كے علاوہ كوئى اور استعمال نہيں كرتا، اور وہ بھى زينت كے ليے استعمال كرتى ہيں، برخلاف يہودى اور عيسائى عورتوں كے، عيساى عورتيں صليب كنندہ زيور پہنتى ہيں، يا پھر بت والا زيور، اور يہودى عورتيں ڈيوڈ سٹار والا زيور پہنتى ہيں، آپ سے گزارش ہے كہ اس موضوع كے متعلق اپنى رائے بيان كريں.

كميٹى نے درج ذيل جواب ديا:

" يہ ديكھتے ہوئے كہ اس زيور پر لفظ جلالہ كنندہ ہے، اور مسلمان عورتيں اسے سينوں پر اس طرح لٹكاتى ہيں جس طرح عيسائى صليب والا اور يہودى عورتيں ڈيوڈ سٹار والا زيور لٹكاتى ہيں.

اور يہ ديكھتے ہوئے كہ جس ميں اللہ كا نام ہے اسے بعض اوقات تو تكليف دور كرنے يا نفع كے حصول كے ليے لٹكايا جائيگا، اور بعض اوقات كسى اور مقصد كے ليے، اور اسے لٹكانا توہين كا باعث بن سكتا ہے، مثلا يہ كہ سوتے وقت اس كے اوپر آ جائے، يا پھر وہ اسے لے كر كسى ايسى جگہ جائے جہاں كلام اللہ يا اللہ كے نام پر مشتمل چيز كو لے جانا مكروہ ہو؛ كميٹى كى رائے يہ ہے كہ لفظ جلالہ والا زيور استعمال كرنا جائز نہيں، تا كہ بطور سد ذريعہ يہود و نصارى سے مشابہت نہ ہو، كيوكہ مسلمانوں كو يہود و نصارى كى مشابہت سے منع كيا گيا ہے، اور اللہ تعالى كے نام كى توہيں نہ ہو، اور اس ليے بھى كہ عمومى طور پر تعويذ لٹكانے كى ممانعت بھى آئى ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 473 ).

دوم:

دل كى شكل والا سونا پہننے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر كندھے يا آنكھ كى شكل يا پھر نيلے منكے كى شكل ميں ہو تو اسے نہيں پہننا چاہيے، كيونكہ يہ اشياء اس اعتقاد كے ساتھ لوگ پہنتے ہيں كہ يہ نظر بد سے بچاتے ہيں، يا نصيب بر لاتے ہيں، حتى كہ اگر مسلمان شخص كا اس كے پہننے ميں يہ غلط اعتقاد نہ بھى ہو تو اسے پھر بھى نہيں پہننا چاہئے كيونكہ اس سے اس شخص كے ساتھ مشابہت ہوتى ہے جس نے غلط اعتقاد سے پہنا ہو.

اور پھر لوگوں كے ليے اس كے بارہ ميں سوء ظن كا بھى باعث بن سكتا ہے كہ وہ يہ گمان كرينگے كہ اس نے نظر بد سے بچنے كے ليے پہن ركھا ہے، اس ليے يہ پہننا جائز نہيں، اور يہ تعويذ پہننے كى ممانعت ميں شامل ہو گا.

امام احمد نے عقبہ بن عامر جھنى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے تميمہ ( تعويذ ) لٹكايا اس نے شرك كيا "

مسند احمد حديث نمبر ( 17458 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور امام احمد نے عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے ہى بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں: وہ كہتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جس نے تميمہ ( تعويذ ) لٹكايا تو اللہ ا سكا كام پورا نہ كرے، اور جس نے كوڑى لٹكائى اللہ اس كى بيمارى دور نہ كرے "

مسند احمد حديث نمبر ( 17440 ) شعيب ارناؤط نے مسند احمد كى تحقيق ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

تميمہ اسے كہتے ہيں جو نظر بد اور آفات سے بچنے كے ليے لٹكايا جائے.

خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

التميمۃ: كہا جاتا ہے كہ منكے تھے جو آفات كو دور كرنے كے ليے لٹكاتے تھے "

اور بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

التمائم: تميۃ كى جمع ہے، اور يہ منكے دانے ہيں جو عرب اپنى اولاد كے گلے ميں اپنے گمان كے مطابق نظر بد سے بچنے كے ليے لٹكاتے تھے، تو شريعت نے اسے باطل قرار ديا "

ديكھيں: التعريفات الاعتقاديۃ صفحہ ( 121 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور ( الودعۃ ) الودع كى واحد ہے، اور يہ سمند سے نكالے جانے والے پتھر ( كوڑياں ) ہيں، جو نظر بد سے بچنے كے ليے لٹكاتے اور گمان كرتے تھے كہ انسان جب يہ كوڑى لٹكائے تو نظر بد نہيں لگتى، يا پھر جن نہيں چھوتا.

قولہ: " لا ودع اللہ لہ " يعنى اللہ تعالى اسے سكون و آرام نہ دے، اور الدعۃ كا ضد پريشانى اور تكليف ہے.

اور كہا جاتا ہے: اللہ تعالى اس كے ليے خير نہ چھوڑے؛ تو اس كے مقصد كے الٹ معاملہ كيا گيا ہے.

اور قولہ: ( اس نے شرك كيا ) اگر ا سكا اعتقاد يہ ہو كہ وہ چيز فى نفسہ اللہ كے حكم كے بغير تكليف دور كرتى ہے تو يہ شرك اكبر ہو گا، وگرنہ شرك اصغر. " انتہى.

ديكھيں: القول المفيد شرح كتاب التوحيد ( 1 / 189 ).

جس شخص كو اس طرح كے سونے كا ٹكڑا ہديہ ميں ملے تو وہ اسے پہنے نہيں، بلكہ فروخت كر دے، اور اسے چاہيے كہ وہ اسے فروخت كرنے سے قبل اس كے نشانات مٹا دے كہ ا سكا پہننا ممكن نہ ہو، بلكہ وہ ڈھال كر نيا بنايا جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب