منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

ایک شخص بس ڈرائیور ہے، کیا اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے؟

سوال

میرے لیے رمضان کے روزے چھوڑنا جائز ہے؛ کیونکہ میں بس ڈرائیور ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رمضان کے روزے ہر بالغ، عاقل، مقیم اور تندرست مسلمان  پر واجب ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے؛ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ . أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ ٭ یہ گنتی کے دن ہیں پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو  یا سفر پر ہو تو دیگر ایام میں ان کی گنتی پوری کر لے۔[البقرة:183، 184]

اس بنا پر اگر آپ کی ملازمت اس طرح کی ہے کہ آپ کو اتنی دور جانا پڑتا ہے جہاں نماز قصر ہو جائے اور نماز قصر ہونے کی مسافت تقریباً: 80 کلومیٹر ہے،تو آپ کے لیے جائز ہو جائے گا کہ آپ سفر کے دوران روزہ چھوڑ دیں، پھر رمضان کے بعد جن ایام میں آپ کے لیے روزہ رکھنا آسان ہو تو ان دنوں میں روزوں کی قضا دے دیں، مثلاً: سردی کے دنوں میں ۔

اور اگر آپ کی ملازمت شہر کے اندر ہی ہے تو آپ پر روزہ رکھنا واجب ہے، آپ کے لیے روزہ ترک کرنا حرام ہے، تاہم اگر آپ کو کسی دن انتہائی شدید قسم کی مشقت برداشت کرنا پڑے تو آپ اتنی مقدار میں کھا پی لیں جس سے مشقت دور ہو جائے اور پھر بقیہ دن میں کھانے پینے سے پرہیز کریں، اور بعد میں اس روزے کی قضا دیں؛ اس کی دلیل انسانی جان کے تحفظ ، آسانی، اور عدم استطاعت کے عمومی شرعی لائل ہیں۔

جیسے کہ "شرح منتهى الإرادات" (1/478) میں ہے کہ:
"اور جس کا پیشہ انتہائی محنت طلب ہو ،کہ  اگر پیشہ چھوڑے تو نقصان ہو گا، یا کسی چیز کے تلف ہونے کا خدشہ ہو تو روزہ افطار کر لے گا اور بعد میں قضا دے گا، آجری نے  اسے ذکر کیا ہے۔" ختم شد

اسی طرح  دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی  (10/233) میں ہے کہ:
"کسی مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ رمضان کا روزہ چھوڑ ے محض اس وجہ سے کہ وہ مزدور ہے، لیکن اگر اسے شدید مشقت در پیش ہو جس کی وجہ سے وہ دن کے وقت روزہ توڑنے پر مجبور ہو تو وہ شخص کسی ایسی چیز کے ساتھـ روزہ توڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے اس کی مشقت دور ہو جائے پھر وہ غروب آفتاب تک کھانے پینے سے رکا رہے پھر لوگوں کے ساتھـ افطاری کرے اور پھر اس دن کی قضا کرے جس دن اس نے روزہ توڑ دیا تھا" ختم شد

اور اگر آپ کو یقین ہو کہ آپ ملازمت کے ساتھ روزہ نہیں رکھ سکتے تو آپ کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ آپ ان دونوں میں کوئی اور کام تلاش کریں، یا اپنے کام سے چھٹی لے لیں تا کہ آپ اسلام کے عظیم رکن  کی آسانی سے ادائیگی کر  سکیں۔

چنانچ دائمی فتوی کمیٹی  سے پوچھا گیا کہ:
" ان مزدوروں کا شرع اسلامی میں کیا حکم ہے جو بدنی طور پر انتہا درجہ تھکا دینے والے کام کرتے ہیں خاص طور پر گرمی کے مہینوں میں؟ انہوں نے اس کی مثال یہ دی ہے کہ وہ لوگ جو گرمی میں مختلف قسم کی دھاتوں کے پگھلانے والے کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔"

تو کمیٹی نے جواب دیا:
" یہ بات ضروریات دین میں سے واضح ہے کہ رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا ہر مکلف پر فرض ہیں اور روزے اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے؛ لہذا ہر مکلف پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے فرض کی ادائیگی کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے رب سے ثواب کی امید اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اپنے روزوں پر بھر پور توجہ رکھے لیکن دنیا سے اپنا حصہ نہ بھولے، اور اپنی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دے، اور اگر اللہ کی فرض کردہ عبادات کی ادائیگی اس کے دنیا کے کسی کام سے متصادم ہو، تو اس پر واجب ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان تطبیق دے تاکہ وہ دونوں کام اکٹھے کر سکے؛ لہذا سوال میں مذکورہ مثال کا حل یہ ہے کہ وہ اپنے دنیا کے کام کے لئے رات کا وقت خاص کر دے، پس اگر ایسی صورت مہیا نہ ہو، تو رمضان کے مہینے میں کام سے چھٹی لے اگرچہ بغیر تنخواہ کے بھی چھٹی ملے۔ پس اگر ایسی صورت بھی میسر نہ ہو، تو کوئی دوسرا ایسا کام ڈھونڈے جس میں دونوں واجبات کی ادائیگی کو جمع کرنا ممکن ہو، اور اس کی دنیاوی جانب اس کی اخروی جانب پر اثر انداز نہ ہو۔ کام بہت زیادہ ہیں اور مال کمانے کے طریقے فقط اس جیسے سخت کاموں پر منحصر نہیں ہیں، اور کسی مسلمان کے لئے ایسےجائز کام کی کمی نہیں ہے کہ جس کے ساتھـ وہ اللہ کی فرض کردہ عبادات اللہ کے فضل سے پوری ادا کر سکے، فرمان، باری تعالی ہے:
(وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا)
ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے  ٭ اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہو گا۔ اللہ تعالی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا  اللہ تعالی نے ہر چیز کا ایک تخمینہ مقرر کر رکھا ہے۔[ الطلاق :3،2]

اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس شخص کو کوئی ایسا کام نہیں ملتا صرف اس کے پاس وہی حرج و مشقت والا کام ہے، اور وہ اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ظالم قوانین کے آڑے نہ آ جائے، اور وہ اس کے ذ مے کوئی ایسا کام لگا دیں جس کی وجہ سے وہ دینی شعائر یا بعض فرائض قائم نہ کر سکے گا، تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کی خاطر ایسی سرزمین کو چھوڑ کر ایسی جگہ آ جائے جہاں اپنے دین و دنیا کے واجبات کو آسانی سے ادا کر سکے، اور اس جگہ مسلمانوں کے ساتھـ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مدد کرے چونکہ اللہ کی زمین وسعت والی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً)
ترجمہ: اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے، وہ زمین میں پناہ کی بہت سی جگہ اور بڑی وسعت پائے گا ۔[ النساء :100]

اسی طرح فرمایا: (قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں کہ: اے میرے بندو ! جو ایمان لائے ہو، اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو جو لوگ نیک کام کرتے ہیں۔ ان کے لئے اس دنیا میں (بھی) بھلائی  ہے۔ اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔ بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا ۔[ الزمر:10]
چنانچہ اگر ان کے لئے مذکورہ کوئی صورت میسر نہ ہو اور وہ ایسا سخت کام کرنے پر مجبور ہوں جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے، تو وہ شخص روزے رکھے۔ لیکن جب حرج والی صورت محسوس کرنا شروع کرے، تو حرج میں پڑے بغیر وہ کھائے پیے پھر باقی دن کھانے پینے سے رک جائے، اور جب ایسے دن ہوں جن میں اس کے لئے روزہ رکھنا آسان ہو، تو اس پر اس روزے کی قضا کرنا لازم ہے۔" ختم شد
فتاوی دائمی کمیٹی (10/234)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب