"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميرا سوال برطانيہ ميں فاسٹ فوڈ ريسٹورنٹ ميں كھانے كے متعلق ہے، ميں نے سوال نمبر ( 12776 ) كے جواب ميں پڑھا ہے جو اہل كتاب كے ذبح كردہ كو كھانے كے جواز كى طرف اشارہ ہے كہ جب اسے جھٹكا سے ذبح نہ كيا گيا ہو، اور موت سے قبل اسے ذبح كر ليا گيا ہو.
حقيقت ميں ميرے ہاتھ ايك برطانوى اخبار لگا جس ميں ذبح كا تفصيل بيان كى گئى ہے جس كا عنوان ہے " تمہارے دسترخوان تك گوشت كيسے پہنچتا ہے " اس تفصيل ميں بيان كيا گيا ہے كہ گائے پر پندرہ سينٹى ميٹر كے فاصلہ سے گولى فائر كى جاتى ہے جو اسے قتل نہيں كرتى بلكہ اس كى حركت كو شل كر ديتى ہے، پھر اسے مذبح خانہ ميں لٹكايا جاتا ہے تا كہ گردن كے بالكل اوپر سے سر كاٹا جا سكے، تو كيا اس طرح كا ذبح كردہ گوشت كھانا جائز ہے يا دوسرے معنوں ميں اگر ہم فرض كريں كہ وہ اس طريقہ سے ذبح كرتے ہيں تو كيا يورپى ہوٹلوں ميں كھانا كھانا جائز ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
شرعى طريقہ پر مذبوح كردہ جانور ميں سب سے اہم شرط يہ ہے كہ جانور ذبح كے وقت زندہ ہو، ذبح كے وقت جانور كا زندہ ہونے كے معانى كى تفصيل اور تقسيم فقھاء كے ہاں بہت زيادہ ہے، اور ہلاكت كے بعض اسباب ميں فرق بھى كيا گيا ہے مثلا گلا گھونٹ كر ہلاك كرنا، يا اوپر سے گرا كر، اور كوئى ايسا سبب نہ پايا جاتا ہو جو ہلاكت كى باعث بنے، مگر ان تفصيلات ميں ان شياء اللہ يہى نكلتا ہے كہ شرعى طور پر ذبح ميں جانور ميں زندگى كا وجود ہونا كافى ہے، اور اس كى علامت اور نشانى خون كا بہنا ہے اس سے زيادہ كوئى شرط نہيں لگائى جاتى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صحيح يہ ہے كہ: اگر جانور زندہ ہو اور اسے ذبح كر ديا جائے تو اسے كھانا حلال ہے، اور اس ميں ذبح كردہ جانور كى حركت كا اعتبار نہيں ہو گا، كيونكہ ذبح كردہ جانور كى حركات منضبط نہيں ہوتيں، بلكہ كچھ كى لمبى اور زيادہ حركت ہوتى ہيں.
اور فرمان ہے:
جس كا خون بہے اور اس پر بسم اللہ پڑھى گئى ہو تو كھا لو "
اس ليے جب ذبح كردہ جانور سے خون بہے اور ذبح كرتے وقت وہ جانور زندہ تھا تو اس كا كھانا حلال ہے.
لوگ زندہ اور مردہ كے خون ميں فرق كرتے ہيں، كيونكہ مردہ جانور كا خون جم كر سياہ ہو جاتا ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے مرا ہوا جانور حرام كيا ہے كيونكہ اسميں رطوبات جم جاتى ہيں.
ليكن جب خون جارى ہو جائے جو ذبح كردہ جانور سے نكلتا ہے، اور ذبح كے وقت وہ جانور زندہ تھا تو اس كا كھانال حلال ہے، اور اگرچہ يہ يقين ہو جائے كہ وہ مر جائيگا، كئى ايك صحابہ كرام نے يہ فتوى ديا ہے كہ جب جانور ذبح كے بعد اپنى دم ہلائے يا اس نے اپنى آنكھ جھپكى يا اپنى ٹانگ چلائى تو وہ حلال ہے، اور انہوں نے يہ شرط نہيں لگائى كہ اس سے قبل اس كى حركت ذبح كردہ جانور سے زيادہ ہونى چاہيے.
صحابہ كرام نے يہى كہا ہے، كيونكہ يہ زندگى كى دليل ہے، اور دليل منعكس نہيں ہوتى، تو اس سے يہ لازم نہيں آتا كہ اگر اس ميں يہ نہ ہو تو وہ مردہ ہے، بلكہ ہو سكتا ہے وہ زندہ ہو چاہے اس ميں اس طرح كى چيز نہ پائى جائے، اور ہو سكتا ہے انسان سويا ہوا ہو، تو سوتے ميں ہى ذبح كر ديا جائے اور اس ميں اضطراب پيدا نہ ہو، اور اسى طرح بےہوش كو ذبح كيا جائے تو اس ميں بھى اضطراب نہ ہو اور اسى طرح جانور بھى زندہ حالت ميں ذبح كيا جائے تو حركت كى كمزورى كى بنا پر اس ميں اضطراب اور حركت پيدا نہ ہو چاہے وہ زندہ ہى تھا، ليكن اس خون كا نكلنا جو صرف ذبح كردہ سے ہى خارج ہوتا ہے وہ مردہ جانور كا خون نہيں، وہ اس كے زندہ ہونے كى دليل ہے, واللہ تعالى اعلم " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 35 / 237 ).
دوم:
اس بنا پر ـ ميرے بھائى ـ آپ نے اپنے علاقے ميں ذبح كے طريقہ كے متعلق جو معلومات بيان كى ہيں، كہ وہ ذبح كرنے سے قبل جانور كى حركت كو شل كرنے كے ليے گولى فائر كرتے ہيں، يہ اس حالت ميں جب ايسا كرنے والے كے گمان ميں غالب يہ ہو كہ ايسا كرنے سے جانور كى موت واقع نہيں ہو گى بلكہ صرف اس كى حركت شل كرنے كے ليے ہے، اور زندگى اس ميں دوڑ رہى ہے اور اس كى روح نہيں نكلى، اور نہ ہى اس كى موت كا خدشہ ہے، تو اس طرح كے جانور كو اگر بعد ميں شرعى طريقہ سے ذبح كيا جائے تو اس كا كھانا حلال ہے، اور ذبح كرنے ميں آسانى پيدا كرنے كے ليے اس پر گولى فائر كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ہمارى ويب سائٹ پر بےہوش كرنے يا جانور كو سن كرنے كے بعد ذبح كرنے كا حكم بيان ہو چكا ہے، يہاں ہم مزيد تفصيل كے ليے اسلامى فقہ اكيڈمى مكہ مكرمہ كى طرف سے جارى بيان نقل كرتے ہيں:
اول:
جب كھانے والا جانور بجلى كا كرنٹ لگا كر بےہوش كر ديا جائے اور پھر اس كے بعد اسے ذبح يا نحر كيا جائے اور اس ميں زندگى ہو تو اس كا ذبح شرعى ہے، اور اسے كھانا حلال ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:
تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، ليكن اسے تم ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں المآئدۃ ( 3 ).
دوم:
جب ذبح يا نحر كرنے سے قبل بجلى كا كرنٹ لگنے سے جانور كى روح نكل جائے تو وہ مردار شمار ہوگا اس كا كھانا حرام ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:
تم پر مردار حرام كيا گيا ہے .
سوم:
ذبح يا نحر كرنے سے قبل جانور كو انتہائى وولٹ كا كرنٹ لگانا جانور كے ليے اذيت اور تعذيب كا باعث ہے، اور اسلام اس سے منع كرتا ہے، اور جانور كے ساتھ رحم و نرمى كرنے كا حكم ديتا ہے.
صحيح حديث ميں نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر چيز پر احسان كرنا فرض كيا ہے، اور جب تم قتل كرو تو قتل كرنے ميں اچھائى اور احسان اختيار كرو، اور جب تم ذبح كرو تو اچھى طرح ذبح كرو، اور تمہيں چاہيے كہ اپنى چھرى تيز كر لے، اور اپنے ذبح كردہ جانور كو راحت پہنچائے "
صحيح مسلم.
چہارم:
اگر بجلى كا كرنٹ كم وولٹ اور ہلكا ہو، كہ جانور كو تكليف نہ دے، اور اس ميں اس كے ليے مصلحت يعنى اس كى درد كم كرنا مقصود ہو، اس كى گردن كو ٹھنڈا كرنا اور اس كى مزاحمت كو كم كرنا مقصود ہو تو مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے اس ميں شرعا كوئى حرج نہيں, واللہ تعالى اعلم " انتہى.
ماخوذ از: فقہ النوازل تاليف ڈاكٹر الجيزانى ( 4 / 251 ).
فقہ اكيڈمى جدہ كى قرار نمبر ( 94 ) ميں درج ہے:
ا ـ شرعى ذبح ميں اصل تو يہى ہے كہ جانور كو بےہوش نہ كيا جائے؛ كيونكہ ذبح كرنے كا اسلامى طريقہ بمع شروط اور آداب ہى سب سے بہتر اور اچھا ہے، جس ميں جانور كے ساتھ رحم، اور اس كے ذبح كرنے ميں نرمى اور اس كى تكليف كو كم كرنا شامل ہے.
مذبح خانہ اور ذبح كى نگرانى كرنے والے اداروں سے گزارش اور مطالبہ كيا جاتا ہے كہ وہ بڑے جانوروں كو ذبح كرنے كے وسائل ترقى يافتہ حاصل كريں، ليكن اس كے ذبح ميں اصل چيز بہتر اور اكمل طريقہ سےموجود ہو.
ب ـ اس كے ساتھ اس كا خيال ركھا جائے، كيونكہ بے ہوش كرنے كے بعد جو جانور شرعى طريقہ سے ذبح كيے جاتے ہيں جب ان ميں فنى شروط پورى پائى جائيں جن سے ذبح كرنے سے قبل اس كى عدم موت كا ثبوت ملتا ہو تو اس كا كھانا حلال ہے.
ج ـ جس جانور كو ذبح كرنا مقصود ہو اسے ضرب لگانے والى سوئى والے پسٹل، يا گوشمالى يا ہتھوڑے وغيرہ جيسے پسٹل كےساتھ انگريزى طريقہ سے بےہوش كرنا جائز نہيں " انتہى.
حاصل يہ ہوا كہ: آپ نے جو طريقہ بيان كيا ہے اس طريقہ پر ذبح كردہ جانور كھانا جائز ہے، اور ان ذبح كردہ كو كھانے ميں كوئى حرج نہيں.
مزيد فائدہ اور تفصيل كے ليے آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں:
سوال نمبر ( 10339 ) اور ( 14308 ) اور ( 20805 ) كے جوابات.
واللہ اعلم .