"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ اپنى ولايت ميں موجود عورت كو ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرے جس سے وہ رغبت نہيں ركھتى، اور وہ عقد جس سے يہ ثابت ہو كہ بالغ عورت كا اس كے ارادہ كے بغير نكاح كيا گيا ہے وہ بعض علماء كے ہاں باطل ہے، اور دوسرے علماء كے ہاں اس كو تسليم كر لينے پر موقوف ہے، بہر حال بالغ عورت كو شادى پر مجبور كرنا جائز نہيں.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 47439 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
ہمارے خيال ميں آپ چھوٹى نہيں كہ آپ كى شادى كے معاملہ پر آپ كى والدہ اور آپ كا بھائى كنٹرول كريں، آپ كو چاہيے تھا كہ آپ ان كے سامنے كھڑے ہو جاتيں اور اس طرح كى شادى پر اعتراض كرتيں، اور خاص كر آپ ايسے ملك ميں ہيں جہاں كى حكومت كا دعوى ہے كہ وہ عورت كى مدد كرتے ہيں!
دوم:
كافر حكومتوں كى عدالتوں ميں جو عقد ہوتے ہيں وہ باطل ہو سكتے ہيں اور صحيح بھى، اگر تو اس سے پہلے شرعى عقد ہوا ہو جو ايجاب و قبول اور ولى كى موافقت اور دو گواہ كى موجودگى ميں اور نكاح كا اعلان ہوا ہو تو ان عدالتوں كے سامنے يہ عقد توثيق اور ثبوت كے ليے ہے، اور اگر عدالت كے عقد سے قبل شرعى عقد نكاح نہيں ہوا تو اس عقد كى كوئى قيمت نہيں، اور نہ ہى اس پر احكام مرتب ہونگے كيونكہ يہ عقد باطل ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 4458 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
كافر حكومتوں ميں كچھ عقد ايسے بھى ہيں جو عفت و عصمت اور ستر پوشى اور گھرانہ قائم كرنے كے ليے نہيں ہوتے بلكہ ان كا مقصد اور غرض و غايت صرف جنسى معاملہ ہوتا ہے! اور يہ معلوم ہونا چاہيے كہ شادى ايك اللہ كا كلمہ ہے اور پختہ وعدہ اور ميثاق ہے، ان عقود كى توہين نہيں كرنى چاہيے، اور نہ ہى اس كو كھلواڑ بنايا جائے.
اور يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ كاغذى عقد يا شكلى عقد اگر شرعى طريقہ پر مكمل ہو تو اس پر شرعى آثار مرتب ہوتے ہيں يعنى اس ميں مہر بھى ہوگا اور عدت وغيرہ بھى، ليكن اگر وہ شرعى احكام اور شروط كے مطابق نہيں تو ان پر شرعى آثار مرتب نہيں ہونگے، اور گناہ ضرور ہوگا.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ہم چند مصرى جوان ہيں ليكن ہالينڈ ميں رہتے ہيں، ہم ايك مسئلہ ميں اسلامى حكم معلوم كرنا چاہتے ہيں كہ بعض مسلمان نوجوان جو شادى كے ليے كسى يورپى لڑكى يا پھر اجنبى عورتوں سے شادى كرتے ہيں جن كے پاس رہائش پرمٹ ہوتا ہے تا كہ ہالينڈ ميں رہائش پرمٹ حاصل كيا جا سكے، يہ علم ميں رہے كہ يہ شادى صورى ہوتى ہے يعنى صرف كاغذى طور پر ہى جيسا كہ كہا جاتا ہے يعنى وہ عورت كے ساتھ نہيں رہتا اور نہ ہى وہ عورت اس كے ساتھ بيوى كى طرح رہتى ہے، بلكہ صرف حكومتى اداروں ميں جاتى ہے اور اس كے ساتھ دو گواہ ہوتے ہيں اس طرح عقد نكاح كى تصديق ہو جاتى ہے، اور اس كے بعد ہر كوئى اپنى راہ ليتا ہے ؟كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" عقد نكاح ان عقود ميں شامل ہوتا ہے جن كى اللہ سبحانہ و تعالى عظيم الشان ہونے كى بنا پر تاكيد كى اور جسے " ميثاق غليظ " كا نام ديا ہے، اس ليے عقد نكاح كو صرف رہائش پرمٹ حاصل كرنے كا سہارا اور غير حقيقى نہيں بنانا چاہيے.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 98 - 99 ).
اور سوال نمبر ( 2886 ) كے جواب ميں ايك اور فتوى بيان ہوا ہے جو اس كو حرام اور منع قرار ديا ہے، اس ليے آپ اس كا بھى مطالعہ كريں.
ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كا والد موجود اور زندہ ہے اور اس حالت ميں وہ آپ كى شادى ميں آپ كا ولى ہے، چاہے اس نے آپ كى والدہ كو طلاق بھى دے ركھى ہے، آپ كے والد كے ہوتے ہوئے آپ كا بھائى آپ كا ولى نہيں بن سكتا، اس ليے اگر تو آپ كى شادى آپ كے والد كى موافقت اور دو گواہوں كى موجودگى اور آپ كى رضامندى سے ہوئى ہے تو يہ عقد شرعى ہے اور اس پر شرعى آثار مرتب ہونگے، چاہے يہ اس كے ساتھ نہ رہنے كے ليے بھى ہوا ہے ؛ كيونكہ ـ اس حالت ميں ـ اس كا واقع ہونا شرعى طور پر پورے اركان اور شروط كے ساتھ ہے، اس ليے آپ كا كسى اور كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں، الا يہ كہ آپ پہلے طلاق حاصل كريں، اور آپ كى عدت ختم ہو جائے.
ليكن اگر يہ عقد نكاح صرف سركارى اداروں ميں آپ كى موافقت كے بغير يا آپ كے والد كى موافقت كے بغير ہوا ہے تو يہ عقد غير شرعى ہے، اور اس پر شرعى آثار مرتب نہيں ہوتے، اور نہ ہى طلاق حاصل كرنے كى ضرورت ہے، مگر يہ كہ آپ سركارى كاغذات ميں اس شخص كى بيوى ہيں، اس ليے طلاق ليں، اس ليے نہيں كہ آپ اس كى شرعى بيوى ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ يہ بھى كہ اس غلط نكاح ميں جس نے بھى معاونت كى ہے وہ بھى گنہگار ہے، كيونكہ اس ميں شرعى عقد كى توہين كى گئى ہے اور اسے كھلواڑ بنايا گيا ہے.
خلاصہ يہ ہوا كہ: آپ كے ليے نئى شادى كرنے ميں كم از كم احتياط ضرورى ہے، اور آپ نيا نكاح كرنے سے قبل پہلے سے طلاق حاصل كر ليں، اور آپ كے ليے نيا نكاح اور شادى صرف پہلے سے طلاق لينے كے بعد كرنا ممكن ہے اور اس ميں عدت كى كوئى ضرورت نہيں، اور نہ ہى ان دونوں شاديوں كے درميان كوئى فاصلہ دركار ہے.
اور رہا مسئلہ كہ آپ كا اپنے نئے خاوند يعنى منگيتر كو اس كے متعلق بتانا اگر تو آپ كا غالب گمان ہے كہ جو كچھ ہو چكا ہے اس كے متعلق اسے كوئى علم نہيں تو ہم آپ كو اسے بتانے كى نصيحت نہيں كرتے، بلكہ آپ اس سے شادى كر ليں گويا كہ كچھ ہوا ہى نہيں.
اور اگر آپ خيال كرتى ہيں كہ اسے اس كا علم ہو جائيگا تو اسے پہلے ہى بتانا افضل اور بہتر ہے، اور پھر دل تو اللہ كے ہاتھوں ميں ہيں وہ جس طرح چاہتا ہے انہيں گھما ديتا ہے، آپ اپنے پروردگار سے مدد مانگيں كہ اگر اس سے شادى كرنے ميں بہترى اور بھلائى ہے تو وہ اس كے دل كو آپ كى جانب پھير دے.
واللہ اعلم .