"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
فضائى چينلوں اور ويب سائٹس اور انٹرنيٹ مجالس كے ذريعہ شادى كرانا سلبيات سے خالى نہيں، اور ہمارى رائے كے مطابق تو يہ شادياں اكثر طور پر ناكام ہى ہوتى ہيں، اور ايسے لوگ بھى ہيں جو اسے تفريح اور متعہ كا ذريعہ بناتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہوتے ہيں جو اسے لہو و لعب اور كھيل بنا كر كھيلتے ہيں، اور يہ لوگ مستقل طور پر استقرار كى كوشش نہيں كرتے، اور نہ ہى حقيقتا يہ شريك حيات تلاش كرتے ہيں كہ كوئى گھر بسايا جائے اور خاندان بنايا جائے، اور نادر كو كوئى حكم نہيں ديا جاتا، اس ليے ہم اپنے بہن بھائيوں كو اس طريقہ سے شريك حيات كى تلاش كرنے سے منع كرتے ہيں.
دوم:
آپ كا شادى سے قبل اپنے ہونے والے شوہر نہ ديكھنا، اور اس كا آپ كو نہ ديكھنے ميں شرعى مخالفت پائى جاتى ہے، اور شادى سے قبل ايك دوسرے كو ديكھنے ميں شريعت كى حكمت يہ ہے كہ ايسا كرنے سے ان كى ازدواجى زندگى اور گھر ميں زيادہ دوام ہوگا، لہذا ايك دوسرے كو ديكھنا قبول كى ابتدا يا انكار ہے، ليكن اچانك ہر ايك كا دوسرے كو سہاگ رات ميں ديكھنا يہ شريعت كے بھى مخالف ہے اور عقل كے بھى؛ كيونكہ ہر ايك اپنے ذہن اور خيال ميں اپنے شريك حيات كى ايك تصوير بنا كر ركھتا ہے، اور جب اچانك اسے اس تصوير كے علاوہ كچھ اور نظر آتا ہے تو پھر مشكلات اور پريشانياں شروع ہو جاتى ہيں، اور جدائى اور فراق كى ابتدا ہو جاتى ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تھا كہ ايك شخص آيا اور آپ كو بتايا كہ اس نے انصار كى ايك عورت سے شادى كى ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" كيا تم نے اسے ديكھا ہے ؟
تو اس نے عرض كيا: نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جاؤ جا كر اسے ديكھو؛ كيونكہ انصار كى آنكھوں ميں كچھ ہوتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2414 ).
اور مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور اپنى منگيتر كا ان كے سامنے ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جاؤ جا كر اسے ديكھو، كيونكہ يہ تمہارے درميان دوام كے ليے زيادہ بہتر ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1087 ) ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے، سنن نسائى حديث نمبر ( 3235 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے، امام ترمذى كہتے ہيں:
" احرى ان يؤدم بينكما " كا معنى يہ ہے كہ: يہ تمہارے مابين محبت و مودت كے دوام كے زيادہ لائق ہے.
سوم:
آپ كى والدہ كے شايان شان اور زيادہ لائق تو يہ تھا كہ وہ آپ كے والد كے قدم كے ساتھ قدم ملاتى اور آپ كو شادى كى ترغيب دلاتى، اور آپ كے ساتھ كھڑى ہوتى، حالانكہ اسے علم تھا كہ آپ كى شادى ميں ہى آپ كى عفت و عصمت چھپى ہے، اور عقلمند مائيں تو اسى چيز كى كوشش كرتى ہيں كہ وہ اپنى بيٹيوں كى اپنے ہاتھوں شادي كرتى ہيں.
اور اس وقت رحمدل ماں كتنى سعادت و خوشى حاصل كرتى ہے جب وہ اپنى بيٹى كو اپنے خاوند كے گھر سدھارتى ديكھتى ہے، تا كہ وہ زوجيت كا ايك نيا گھونسلہ اور گھروندا تيار كريں، اور اطاعت و فرمانبردارى پر گھر كى اساس و بنياد ركھيں، جس ميں محبت و مودت بھرى ہو.
اور اسى وقت آپ كے خاوند كو يہ حق نہيں تھا كہ وہ آپ كى والدہ كے كلمات سے غضبناك ہو كر آپ كو چھوڑ ديتا اور آپ كے پاس آنا ہى چھوڑ ديتا، آپ نے جو اپنى والدہ كى كلام ذكر كى ہے اس ميں تو كوئى ايسى بات نہيں جو ان باتوں كا باعث بنتى؛ لگتا ہے كہ وہ شخص كوئى ايسا بہانہ اور فرصت تلاش كر رہا تھا، اور آپ كى والدہ كى كلام اس كے ليے اس شادى سے چھٹكارے كا ذريعہ بن گئى جس شادى ميں اس كى رغبت ہى نہ تھى.
بہر حال آپ كے والد كو چاہيے كہ وہ اس معاملہ ميں دخل دے، اور اسے آپ كے خاوند كو جتنى جلدى ہو سكے ملنا چاہيے اور وضاحت و صراحت كے ساتھ اس سے بات چيت كرنى چاہيے اور خاوند كو بھى چاہيے كہ وہ اس شادى كے انجام كا فيصلہ كرے يا تو وہ خاوند بن كر واپس آئے اور آپ كو اللہ كى جانب سے واجب كردہ حق دے، يا پھر آپ كو اچھے طريقہ سے چھوڑ دے اور آپ كے جو حقوق بنتے ہيں وہ بھى ادا كرے، پھر آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كريں كہ وہ آپ كى اس مصيبت ميں اجر سے نوازے اور آپ كا اس كا نعم البدل عطا فرمائے.
خاوند كو حق نہيں كہ وہ ٹال مٹول سے كام لے اور جواب ميں دير كرے، اور نہ ہى اسے حق ہے كہ اس كے دل ميں جو ہے اسے آپ سے چھپائے، بلكہ اسے ظاہر كرنا چاہيے؛ تاكہ آپ اپنى راہ كو متعين كريں، اور كسى ايسے شخص كى ذلت ميں نہ رہيں جس كو آپ كے ساتھ زوجيت كے ساتھ رہنے كى رغبت ہى نہيں.
اسى طرح اسے يہ بھى حق نہيں كہ آپ كى والدہ كى طرف سے ہونے والى كلام كى سزا آپ كو دے، كيونكہ اس ميں آپ كا تو كوئى گناہ نہيں، اور نہ ہى آپ اس كے اثرات كو برداشت كرينگى، آپ نے اپنى والدہ كى صحيح كلام اسے بتا كر بہت بڑى غلطى كى ہے.
چہارم:
اگر آپ كا خاوند آپ كى طرف رجوع كر كے آتا ہے تو اسے آپ كے متعلق اللہ سے ڈرنا چاہيے، اور آپ كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرنى چاہيے، اسى طرح اس پر يہ بھى واجب ہے كہ وہ آپ اور اپنى دوسرى بيوى كے پاس رات بسر كرنے ميں مابين عدل و انصاف كرے، اور اخراجات و نفقہ اور لباس ميں بھى عدل كرے، اس كے ليے پہلى بيوى كو اس كى مالدارى كى وجہ سے آپ پر فضيلت دينا حلال نہيں، اور نہ ہى آپ كے فقر و تنگ دستى كى بنا پر آپ كے حق سلب كرنا حلال ہے.
ليكن يہ ہے كہ اگر آپ اپنى مرضى سے اپنے كچھ حقوق چھوڑ ديں، اللہ سبحانہ و تعالى نے ايك سے زيادہ بيوياں ركھنے والوں پر اپنى بيويوں ميں عدل و انصاف كرنا واجب كيا ہے، اور انہيں ان پر ظلم و ستم كرنے اور ان كے حقوق سلب كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كى دو بيوياں ہوں تو وہ ان ميں سے كسى ايك كى طرف مائل ہو تو روز قيامت اس حال ميں آئيگا كہ اس كى طرف مائل ہو گى "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1141 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3942 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2133 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1969 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" حديث كا معنى يہ ہے كہ جو شخص استطاعت كے باوجود اپنى بيويوں كے مابين عدل وانصاف نہيں كرتا اس كے ليے شديد وعيد ہے، اور وہ بيويوں كے نفقہ اور مسكن اور لباس وغيرہ ميں برابرى كرے.
اور يہاں شق سے مراد آدھا حصہ ہے كہ اس كے ظلم و ستم كى سزا ميں اس كا آدھا حصہ مائل ہوگا؛ كيونكہ سزا بھى جنس عمل سے ملےگى، جس طرح وہ اپنى بيوى كے ساتھ كرتا تھا تو اللہ تعالى نے اس كا آدھا حصہ ہى مائل كر ديا، اور بطور سزا اس كے جسم كو غير متوازن اور غير معتدل بنا ديا.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
چنانچہ تم ايك بيوى كى جانب ہى مكمل طور پر مائل نہ ہو جاؤ، اور ( دوسرى كو ) معلق چھوڑ دو النساء ( 129 ).
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 4 / 179) سوال نمبر ( 194 ).
بيويوں كے مابين عدل و انصاف كے بارہ ميں تفصيلى كلام كئى ايك سوالات كے جوابات ميں گزر چكى ہے، اس ليے آپ سوال نمبر ( 10091 ) اور ( 20455 ) اور ( 34701 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
پنجم:
آپ كو علم ہونا چاہيے كہ والدہ كے ساتھ حسن سلوك آپ كے ليے حتمى ہے، اور آپ كے ليے والدہ سے قطع تعلقى اور برا سلوك كرنا حرام ہے، چاہے والدہ سے جو كچھ بھى ہوا ہے، بلكہ آپ كو چاہيے كہ والدہ كو بہتر طريقہ سے نصيحت كريں، اور اس كى بہتر اور اچھے اقوال و اعمال اور احسن اسلوب كے ساتھ راہنمائى كريں.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں ميرے ليے سب سے زيادہ حسن سلوك كا مستحق كون ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تيرى والدہ.
اس شخص نے عرض كيا: پھر كون ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرى ماں.
اس شخص نے عرض كيا پھر كون ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرى ماں.
اس شخص نے عرض كيا: پھر كون؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرا والد "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5626 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2548 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں رشتہ داروں سے نيكى اور حسن سلوك كى ترغيب دلائى گئى ہے، اور ان سب سے ميں حسن سلوك كى زيادہ مستحق والدہ ہے، اس كے بعد پھر والد اور پھر قريب سے قريب تر رشتہ دار.
علماء كرام كا كہنا ہے: ماں كو باپ پر مقدم كرنے كا سبب يہ ہے كہ ماں ہى بچے كى زيادہ تكليف برداشت كرتى ہے، اور اس پر شفقت كرتى ہے، اور بچے كى خدمت كرتى ہے، اور پھر وہ بچے كے حمل كى مشقت بھى برداشت كرتى اور پھر اس حمل كے وضع كرنے كى بھى تكليف اور پھر اسے دودھ پلانے كى تكليف اور مشقت برداشت كرتى ہے، اور پھر اس كى تربيت و پرورش كى اور بيمار ہونے كى صورت ميں تيمار دارى وغيرہ بھى ماں ہى كرتى ہے "
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 16 / 102 ).
آپ نے اپنى آدھى تنخواہ اور آمدنى والدہ كو دے كر ايك بہت ہى اچھا كام كيا ہے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ نے جو خرچ كيا ہے آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے، اور اس پر آپ كو اجر عظيم سے نوازے.
اور آپ كى ماں كو حق نہيں كہ وہ ايسى چيز طلب كر كے آپ پر تنگى كرے جس ميں اس كا حق نہيں، اور نہ ہى آپ پر اسے اپنا مال دينا واجب ہے، ليكن اگر آپ اس كى استطاعت اور قدرت ركھتى ہيں، اور والدہ كو شديد ضرورت ہو اور اس كے پاس اخراجات كے ليے رقم نہ ہو اور نہ ہى اس پر كوئى خرچ كرنے والا ہو تو آپ حسب استطاعت اس كا تعاون كريں.
اور والدين ميں سے كسى ايك كو بھى حق نہيں كہ وہ اپنى اولاد كے مال پر تسلط قائم كرے، اور بہت سارے لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان كا غلط مفہوم ليتے ہيں:
" تم اور تمہارا مال اپنے باپ كے ہو "
اس كا يہ معنى نہيں كہ والدين اپنى اولاد كے مال پر تسلط جما ليں، اور نہ ہى وہ اپنى اولاد كے مال ميں شريك ہو جائينگے اگر يہ مفہوم صحيح ہوتا تو بيٹے كى وفات كے وقت باپ سارا مال لے ليتا.
بلكہ اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: باپ كے ليے ـ اور اس ميں ماں بھى شامل ہے ـ اپنى اولاد كے مال ميں حق ہے، اگر ان كے پاس مال نہ ہو اور اولاد انہيں دينے اور ان پر خرچ كرنے پر قادر ہوں تو وہ اولاد كے مال سے بقدر ضرورت لے سكتے ہيں.
اس مسئلہ كو تفصيل كے ساتھ ہم درج سوالات كے جوابات ميں بيان كر چكے ہيں، اس ليے آپ سوال نمبر ( 13662 ) اور ( 4282 ) اور ( 82761 ) اور ( 9594 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ كى تكليف اور مشكل كو دور كرے، اور آپ اور آپ كے خاوند كو خير و بھلائى پر جمع فرمائے.
واللہ اعلم .