"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے 17 سال تک سودی بینک میں کام کیا، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سود سے دور رہنے کی توفیق دی تو میں نے بینک کی جاب چھوڑ دی ، جس کے بعد میں نے اپنی زندگی میں بہت بڑی مثبت اور حیرت انگیز تبدیلی دیکھی ہے۔ لیکن آج کل حلال ملازمت ملنا بہت مشکل ہے۔ مجھے اڑھائی سال سے کام نہیں مل رہا ، اور میں پانچ افراد کے خاندان کا واحد کفیل ہوں۔ اب کیا میں کسٹمر سروس میں کام کرتے ہوئے دستاویزات اور پارسل منتقل کرنے والی بین الاقوامی کمپنی میں ملازمت کے لیے درخواست دے سکتا ہوں؟ مسئلہ یہ ہے کہ اس کمپنی کو اس ملک کے اندر جس میں میں رہتا ہوں، شراب کی نقل و حمل کی اجازت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شراب کی بوتلیں - مثال کے طور پر - کسی دوسرے ملک میں ارسال کرنا چاہتا ہے، تو کمپنی انہیں یہ سروس فراہم کرے گی، اور کمپنی کو بیرون ملک سے پارسل بھی موصول ہوتے ہیں جن میں یہ غیر شرعی چیزیں ہو سکتی ہیں۔ اس ملازمت میں میری ذمہ داری کی نوعیت نقل و حمل کے دوران پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنا ہو گا، اور یہ ذمہ داری اس وقت تک رہتی ہے جب تک پارسل کسٹمر تک نہ پہنچ جائے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے اس کمپنی میں جاب کے لیے اپلائی کرنا چاہیے یا نہیں؟ براہ کرم نوٹ کریں کہ کمپنی کی بنیادی سرگرمی - جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے - مختلف قسم کے دستاویزات اور پارسلز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے۔
الحمد للہ.
کورئیر کمپنی میں کام کرنا بذات خود جائز ہے، لیکن اگر کوئی کورئیر کمپنی حرام چیزوں کو منتقل کرنے کے لیے مختص ہو، مثلاً: سودی بینکوں کی دستاویزات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا، یا شراب یا فلمیں، یا گانے وغیرہ تو پھر ایسی کمپنی میں کام کرنا بذات خود حرام ہو جائے گا، اور اگر حلال و حرام دونوں طرح کے کام ہوتے ہیں تو پھر جو کام زیادہ ہو گا اسی کے مطابق حکم ہو گا، لیکن اس میں بھی یہ لازم ہو گا کہ حرام کام خود کرنے سے بچیں۔
اس بنا پر: آپ اس ملازمت کے لیے اپلائی کریں یا نہ کریں؟ اس کا تعلق آپ کی اس ملازمت میں ذمہ داری پر منحصر ہے، کہ آپ جن کاموں کی نگرانی کریں گے اور جن صارفین کے مسائل حل کریں گے وہ کیسے ہیں؟ چنانچہ جو کام حرام ہو گا آپ نہیں کریں گے ؛ لہذا دستاویزات اور حلال پارسل منتقل کرنے سے متعلق معاملات آپ سر انجام دیں گے، لہذا اگر آپ کو ملازمت اس شرط پر دی جائے تو پھر آپ اس جگہ ملازمت کر سکتے ہیں، وگرنہ آپ کو اتنی مقدار میں ہی گناہ ملے گا جتنی مقدار میں آپ حرام چیزوں کے لیے اپنی خدمات پیش کریں گے، لہذا شراب وصول کرنا، شراب منتقل کرنا، فلمیں اور گانے وغیرہ وصول کرنا، سودی اور انشورنس کی دستاویزات منتقل کرنا یہ سب کام جس قدر آپ کریں گے اتنا ہی آپ کو گناہ ہو گا۔ ایسے ہی اس کمپنی کے ذریعے بھیجے یا منگوائے جانے والے کسی بھی حرام چیز کے پارسل کا معاملہ ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ شراب کو منتقل کرنا حرام کام ہے، اور گناہ کے کاموں میں تعاون کے ساتھ ساتھ انسان کو صحیح حدیث میں ثابت لعنت کا مستحق بھی بنا دیتا ہے، نیز ہر ایسی چیز کو منتقل کرنا حرام ہے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: ( 14 / 411 ) میں ہے:
ایک شخص کو صرف شراب بنانے والی کمپنی میں ہی ملازمت مل رہی ہے ، یا شراب خانے میں یا شراب فروخت کرنے والی دکان وغیرہ میں کام کا موقع مل رہا ہے تو ایسے شخص کی کمائی کا کیا حکم ہے، واضح رہے کہ وہ متعدد افراد پر مشتمل خاندان کی کفالت کر رہا ہے۔
تو اراکین کمیٹی نے جواب دیا:
"کسی مسلمان کے لیے شراب بنانے والے فیکٹری ، یا شراب کے گودام یا شراب سے متعلقہ کسی بھی کام کی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کام کی بدولت حاصل ہونے والی کمائی بھی حرام ہے، اس لیے اس مسلمان پر لازم ہے کہ اس کے علاوہ کوئی حلال کام تلاش کرے، اور پہلے جو کچھ اس سے ہو چکا ہے اس کی اللہ تعالی سے معافی مانگے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو۔ تقوی الہی اپناؤ، یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔[المائدۃ: 2]
اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب، شراب نوش، شراب پلانے والا، شراب بنانے والا، شراب بنوانے والا، شراب اٹھانے والا، جس کی طرف لے جائی جائے، شراب فروخت کرنے والا، اور خریدنے والا اور اس کی قیمت کھانے والا سب پر لعنت بھی فرمائی ہے۔ متفق علیہ"
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الرزاق عفيفي ، الشيخ عبد الله بن غديان ، الشيخ عبد الله بن قعود .
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 14 / 411 )
مذکورہ حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی چاہے شراب نوش کافر ہو یا مسلمان ۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: ( 22 / 97 )میں ہے:
سوال: کچھ اساتذہ طلبہ سے شراب وغیرہ اٹھا کر لانے کا کہتے ہیں، تو اگر استاد غیر مسلم ہے تو اسے شراب اٹھا کر دینا حرام ہو گا یا حلال ہو گا؟
اس پر کمیٹی کی طرف سے جواب دیا گیا:
"مسلمان کے لیے شراب نوش کے سامنے شراب پیش کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب اٹھانے والے اور جس کی طرف اٹھا کر لے جایا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز یہ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون بھی ہے اور اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو۔ تقوی الہی اپناؤ، یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔[المائدۃ: 2]" ختم شد
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الله بن غديان ، الشيخ صالح الفوزان ، الشيخ عبد العزيز آل الشيخ ، بكر أبو زيد .
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 22 / 97 )
اس حوالے سے مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (10398 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ہم آپ کو نصیحت کریں گے کہ آپ حلال کام تلاش کریں، اور حرام سے دور رہیں، اور ہمیں نظر آ رہا ہے کہ آپ کے لیے اس کمپنی میں ملازمت کرتے ہوئے حرام چیزوں سے بچنا مشکل ہو گا، ساتھ ہی ہم اللہ تعالی سے امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اس سے کہیں بہتر حلال ذریعہ معاش عطا فرمائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاً وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ * وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً
ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ [2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ بلاشبہ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ [الطلاق: 2 - 3]
ایسے ہی ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (جو شخص کوئی چیز اللہ کے لیے چھوڑ دے تو اللہ تعالی اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے " حجاب المرأة المسلمة " ( ص 49 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم