"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
زکاۃ کی ادائیگی کیلئے یہ شرط ہے کہ اسے غریب آدمی کے ہاتھ میں ےتھمایا
جائے اور اس کی ملکیت میں دی جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَقِيمُوا
الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَنماز
قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو۔ [البقرة : 43]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی:
(
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ
) بیشک زکاۃ فقراء اور مساکین [کی ملکیت میں دینے ]کیلئے ہیں [
التوبہ:60] اس آیت میں حرف جر "لام" زکاۃ کا مال ملکیت میں دینے کو واضح کرتا ہے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: (انہیں یہ خبر دے دو کہ اللہ تعالی نے ان کے اموال پر زکاۃ فرض کی ہے، جو کہ تمہارے فقراء کو دی جائے گی) بخاری: (1458) مسلم: (19)
ان تمام دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ زکاۃ مالدار لوگوں سے لیکر غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے، اس لئے قرضہ معاف کرنا زکاۃ میں داخل نہیں ہوگا، اسی طرح کسی پر مزدوری معاف کرنا بھی یہی حکم رکھتا ہے، یہ موقف جمہور علمائے کرام کا ہے۔
لیکن اگر آپ نے اسے اپنی زکاۃ کی رقم دی اور پھر اس نے اس میں سے آپ کو بغیر کسی دباؤ اور شرط کے کرایہ دے دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/196) میں کہتے ہیں:
"اگر کسی تنگ دست شخص پر کسی مالدار شخص کا قرضہ تھا اور مالدار شخص نے اپنی زکاۃ
اسے دینے کی نیت سےیہ کہا کہ میں اسے اپنا قرضہ معاف کرتا ہوں اور قرضے کو زکاۃ میں
شمار کر رہا ہوں ، اس بارے میں صحیح ترین موقف یہی ہے کہ اس طرح زکاۃ ادا نہیں ہوگی،
یہی موقف ابو حنیفہ اور احمد کا ہے، کیونکہ زکاۃ ابھی تک مالدار نے غریب کے ہاتھ
میں نہیں تھمائی اور جب تک غریب کے ہاتھ میں زکاۃ نہ آئے اس وقت تک زکاۃ ادا نہیں
ہوگی۔۔۔
اسی طرح اگر مالدار شخص نے اس غریب شخص کو زکاۃ اس شرط پر دی کہ وہ اپنا قرض چکانے کیلئے زکاۃ کی یہی رقم مجھے واپس کر دے گا تو تب بھی بالاتفاق زکاۃ ادا نہیں ہوگی، اور نہ ہی اس طرح قرض چکانا درست ہے" انتہی مختصراً
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (23/300) میں ہے کہ:
"کوئی بھی قرض خواہ اپنے تنگ دست مقروض شخص کا قرضہ معاف کر کے اسے اپنی زکاۃ میں
شمار نہیں کر سکتا، اور اگر ایسا کر بھی لے تو اس کی زکاۃ ادا نہیں ہوگی، اسی موقف
کے حنفی، حنبلی فقہاء قائل ہیں اور مالکی فقہاء کے ہاں، ما سوائے اشہب کے اور
شافعی فقہائے کرام کے ہاں یہی صحیح ترین قول ہے، اسی طرح ابو عبید بھی اسی کے قائل
ہیں، ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ : زکاۃ اللہ کا حق ہے، اس لئے اللہ کے حق کو کوئی
انسان اپنے مفاد کیلئے استعمال نہیں کر سکتا، چنانچہ اپنا کھویا ہوا مال، یا قرضہ
حق ِالہی کے ذریعے واپس نہیں لے سکتا۔
تاہم شافعی فقہاء کے ہاں ایک قول کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے جو کہ مالکی فقہاء میں سے اشہب، اور دیگر میں سے حسن بصری سمیت عطا کا موقف بھی ہے ؛کیونکہ اگر مالدار شخص نے اسے زکاۃ دی اور پھر وہی رقم اس سے اپنے قرضہ کے طور پر واپس لے لی تو یہ سب کے نزدیک جائز ہے، چنانچہ اسی طرح قرضہ کو زکاۃ کی مد میں معاف کر دینا بھی جائز ہوگا۔
اگر کوئی شخص اپنے مال کی زکاۃ مقروض شخص کو دے اور وہ اسی رقم کو واپس اپنے قرض کی مد میں واپس کر دے ، یا پھر کوئی مقروض شخص اپنا قرضہ چکانے کیلئے کسی سے مزید قرضہ اٹھائے اور یہ رقم قرض خواہ کو دے دے، پھر قرض خواہ یہی رقم واپس اپنے مقروض کو لوٹا دے اور اسے زکاۃ میں شمار کرے ، اگر ان دونوں صورتوں میں کوئی حیلہ یا باہمی اتفاق، یا پھنسے ہوئے پیسے کو نکلوانا مقصود نہ ہو تو جمہور علمائے کرام کے نزدیک جائز ہے، اور مالکی فقہائے کرام کے ہاں ایک موقف یہی ہے" انتہی
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"اگر آپ کا کسی مریض یا غریب آدمی پر قرضہ ہو تو کیا آپ اس قرضہ کو معاف کرتے ہوئے
اسے زکاۃ میں شمار کر سکتے ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ تنگ دست شخص کو قرض کی ادائیگی کیلئے مزید مہلت
دینی چاہیے، تا کہ جب بھی اللہ تعالی اس پر مہربانی کرے تو وہ قرضہ ادا کر دے، اور
ویسے بھی زکاۃ کی ادائیگی میں مال کسی کے ہاتھ میں تھمانا لازمی ہوتا ہے، کیونکہ
فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَقِيمُوا
الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَنماز
قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو۔ [البقرة : 43] اور اگر آپ قرضہ معاف کر رہے ہیں تو اس
صورت میں غریب آدمی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھما رہے، بلکہ اس کے ذمہ قرض معاف کر
رہے ہیں، اور ویسے بھی غریب اور تنگ دست انسان کا قرضہ معاف کر کے مالدار لوگ اپنی
پھنسی ہوئی رقم واپس لینا چاہتے ہیں، فقیر سے ہمدردی مقصود نہیں ہوتی۔
تاہم آپ اس تنگ دست آدمی کو زکاۃ دے سکتے ہیں، یا مقروض ہونے کی وجہ سے بھی زکاۃ دے سکتے ہیں، اور اگر وہ آپ کو آپ کا قرضہ انہی پیسوں سے واپس کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ دونوں آپس میں پہلے سے ایسا کرنے پر متفق نہ ہوں، بلکہ غریب آدمی اپنی مکمل رضا مندی سے ایسا کرے۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین سمجھنے کی توفیق دے، اور اس پر ثابت قدم بھی رکھے" انتہی
"فتاوى شیخ ابن باز" (14/280)
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (13901) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.