الحمد للہ.
بخارى اور مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو يمن كى طرف روانہ كرتے ہوئے فرمايا تھا:
" تم انہيں يہ بتانا كہ اللہ تعالى نے ان كے اموال ميں زكاۃ فرض كى ہے جو ان ميں سے غنى اور مالدار لوگوں سے حاصل كر كے ان كے فقراء ميں ہى تقسيم كر دى جائے گى"
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بيان كيا كہ زكاۃ ايك ايسى چيز ہے جو لى جاتى ہے، اور واپس كى جاتى ہے، تو اس بنا پر آپ كے ليے جائز نہيں كہ اپنے قرضدار كا قرض معاف كر كے اسے زكاۃ ميں شمار كرليں، كيونكہ قرض معاف كرنا نہ تو لينا ہے، اور نہ ہى واپس كرنا.
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے يہ ذكر كرتے ہوئے كہا ہے:
بغير كسى نزاع اور اختلاف كے قرض معاف كرنے سے بعينہ زكاۃ ادا نہيں ہو گى.
ليكن آپ كے ليے يہ جائز ہے كہ آپ اس محتاج اور ضرورتمند شخص كو اپنى زكاۃ ميں سے اتنا مال ديں جو اس كى ضروريات پورى كرے، اور اس كے ذمہ جو قرض ہے ان شاء اللہ اللہ تعالى اسے بعد ميں ادا كر دے گا.