"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
سوال كرنے والى نے سوال ميں جو كچھ بيان كيا ہے اس سے تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ اس كا خاوند مال اور كاروبار كے لين دين ميں اچھا تصرف نہيں كر سكتا، اور نہ ہى اسے اپنے ہاتھوں ميں آئے ہوئے مال كا خيال ركھنے كا كوئى سليقہ ہے.
اس ليے اس طرح كے شخص كى بيوى كو نہيں چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كو اپنا كوئى مال دے، اور نہ ہى اپنے والد كا مال لے كر دے، اور اس كى دھمكى كے سامنے بھى مت جھكے، اور اس سلسلہ ميں اس كى سچائى اور يقين كے متعلق بيوى كے تجربہ ہى كفيل ہيں كہ خاوند امانت و ديانت ميں كيسا ہے، اور اس سے بھى بڑھ كر تو اس كا دين اور مال كے لين دين ميں اپنے مالك و پررودگار كے احكام كى پابندى كرنا ہے.
اس معاملے كا بہتر اور اچھا حل تو يہى ہے كہ خاوند كے ساتھ اچھا معاملہ كيا جائے اور اسے اللہ كے تقوى و پرہيزگارى كى تلقين و نصيحت كى جائے، اور آمدن كے ليے كوئى مشروع اور جائز طريقہ تلاش كرے جس ميں دوسروں كے مال پر نظر نہ ہو بلكہ خود كمائى كرنے كا رجحان پايا جائے.
كيونكہ بيوى اور بچے كے اخراجات و نفقہ اور رہائش كى ذمہ دارى خاوند پر عائد ہوتى ہے، اور اس كے ليے اسے مشروع اور جائز كام كرنا چاہيے، اسے اللہ كى جانب سے يہى حكم ہے.
افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ بعض خاوند اپنى ذمہ دارى كى قدر نہيں كرتے، اور ان كا طمع و لالچ ايك حد تك قائم نہيں رہتا، جب بيوى كے پاس مال ہو تو وہ اسے اور خرچ كرنے سے باز نہيں آتا، جو كہ برے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے اور دين كى كمزورى ہے.
اس ليے بيوى كو نہيں چاہيے كہ وہ اس سلسلہ ميں اس كا تعاون كرتے ہوئے اس كو ايسا كرنے كى ترغيب دے اور ابھارے كيونكہ عورت كو ايك مستقل مالى ذمہ حاصل ہے، اس ليے عورت پر لازم نہيں كہ وہ اپنے مال ميں خاوند كو كچھ رقم دے بلكہ عورت كو خود حق حاصل ہے كہ وہ مال كاروبار ميں لگائے اور نفع حاصل كرے، اور اسے يہ بھى حق حاصل ہے كہ وہ اپنا مال جتنا چاہے والدين كو دے چاہے خاوند ايسا كرنے كى اجازت نہ بھى دے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
آپ كى نظر ميں ايسے شخص كے بارہ ميں كيا حكم ہے جو اپنى بيوى كو زدكوب كر كے اس كا مال حاصل كرے اور بيوى كے ساتھ برا سلوك كرتا ہو ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ شخص جو اپنى بيوى كو زدكوب كر كے اس كا مال ليتا اور اس سے برا سلوك كرتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى كا نافرمان ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كرو النساء ( 19 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جس طرح ان پر ہيں اچھے طريقہ سے البقرۃ ( 228 ).
كسى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ اس طرح كا برا سلوك بھى كرے اور پھر خود اپنى بيوى سے اپنے ساتھ اچھا سلوك كرنے كا مطالبہ ركھتا ہو، كيونكہ يہ تو ظلم و ستم ہے جو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں شامل ہوتا ہے:
بڑى خرابى و ہلاكت ہے ناپ تول ميں كمى كرنے والوں كے ليے، كہ جب وہ لوگوں سے ناپ كر ليتے تو پورا ليتے ہيں اور جب انہيں ناپ كر يا تول كر ديتے ہيں تو كم ديتے ہيں المطففين ( 1 - 3 ).
چنانچہ ہر وہ انسان جو دوسروں سے اپنا حق پورا حاصل كرے اور پھر لوگوں كو ان كے پورے حقوق نہ ديتا ہو تو وہ شخص مندرجہ بالا آيت كريمہ ميں داخل ہوتا ہے.
ميں اس طرح اور اس كے علاوہ دوسرے لوگوں سے يہى نصيحت كرتا ہوں كہ وہ اپنى بيويوں كے بارہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كريں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى حجۃ الوداع كے موقع پر ميدان عرفات ميں خطبہ ديتے ہوئے فرمايا تھا:
" تم عورتوں كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو، كيونكہ تم نے انہيں اللہ كى امان كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور اللہ كے كلمہ كے ساتھ ان كى شرمگاہوں كو حلال كيا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
اور ميں اس شخص اور اس جيسے دوسرے افراد سے يہ بھى كہتا ہوں كہ: سعادتندى و خوشبختى كى زندگى اسى صورت ميں بن سكتى ہے جب خاوند اور بيوى دونوں ايك دوسرے كے ساتھ عدل و احسان كا معاملہ كرتے ہوں، اور ايك دوسرے كى غلطى سے چشم پوشى كريں، اور ايك دوسرے كى اچھائيوں كو مدنظر ركھتے ہوں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كوئى مومن كسى مومنہ سے بغض نہيں ركھتا؛ اگر اس كے كسے اخلاق كو برا سمجھتا ہے تو اس كے دوسرے اخلاق سے راضى ہو جاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).
ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 487 ).
عزيز بہن: اس كے ليے ممكن ہے كہ آپ كسى نصيحت كرنے والے كى مدد حاصل كريں جو امانت و دين ميں معروف ہوں اور اسے نصيحت كريں كہ بيوى كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آنا ضرورى اور واجب ہے، اور لوگوں كے مال پر نظر نہيں ركھنى چاہيے، اور اس كے مناسب حال كے مطابق اسے كوئى كام تلاش كرنے ميں معاون ثابت ہوں.
اور اگر پھر بھى وہ اس سے باز نہيں آتا اور اپنى دھمكى پر قائم رہتا ہے تو پھر ہمارى رائے كے مطابق تو يہى ہے كہ آپ اس كى دھمكى كى كوئى پرواہ نہيں، اور باقى مانندہ اپنے مال ميں اس كى كوئى بات نہ مانيں، كيونكہ اس جيسے افراد سے كوئى بعيد نہيں كہ وہ باقى مانندہ مال بھى ضائع كر كے معاملہ نئے سرے سے شروع كر دے.
بلكہ جب آپ اور آپ كے والدين كا گھر بھى ضائع كر دے تو پھر يقينى طور پر مشكلات اور زيادہ ہونگى، اور وہ آپ كے ساتھ كھلواڑ كرے گا اور تم سب پر اس كا اور بھى زيادہ كنٹرول ہو جائيگا.
آپ اپنے پروردگار اور مالك سے مدد حاصل كرتے ہوئے صبر كريں، اور اسى كے سامنے التجا و گريہ زارى كريں، اور اپنے خاوند كى حالت كى اصلاح كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے كثرت كے ساتھ دعا كيا كريں.
اور يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس سے زيادہ قدرت ركھتا ہے، اور اس سے اعلى و برتر ہے، اور سارے معاملات اسى اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاتھ ميں ہيں.
ہم آپ كو وہى دعا كرنے كى نصحيت كرتے ہيں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كيا كرتے تھے:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ دعا كيا كرتے تھے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ "
اے اللہ ميں غم و پريشانى اور عجز و كسل اور بخل و بزدلى اور قرضے اور لوگوں كے غلبہ سے تيرى پناہ طلب كرتا ہوں.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6369 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2716 ).
واللہ اعلم.