جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خاوند نے بيوى كا مال لے كر ضائع كر ديا اور مزيد مال حاصل كرنے كے ليے طلاق كى دھمكى ديتا ہے

126899

تاریخ اشاعت : 19-11-2015

مشاہدات : 3473

سوال

سوال بيان كرنے والى اپنا قصہ بيان كرتے ہوئے كہتى ہے كہ: بچپن ميں اس كا ايكسينڈنٹ ہوا تو اس كے والدين نے ہر قيمتى چيز خرچ كے كے كئى برس تك علاج كرايا، اس كے بعد ايك مكان خريد كر اس كے نام رجسٹرى كرادى، دن اسى طرح گزرتے رہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے فضل و كرم سے اس كى شادى ہو گئى.
اس نے والدين كے ساتھ اچھا سلوك كرتے ہوئے اس كے بدلے ميں والدين كے ليے ايك گھر خريد كر انہيں ہديہ دے ديا، ليكن ا سكا خاوند اس سوچ كے خلاف ہے، اور اس نے اصرار شروع كر ديا كہ وہ يہ مكان اپنے نام ہى ركھے، تو بيوى نے ايسا ہى كيا.
جب شادى ہو گئى تو اس نے خاوند سے كہا: ميں چاہتى ہوں كہ تم ميرا مال اپنا مال سمجھو، اور كوئى ايسا كام تلاش كرو جس ميں ہم اپنى جمع پونجى لگا كر تجارت كريں ليكن شرط يہ ہى كہ اس كام ميں نہ تو حرام ہو اور نہ ہى كوئى نشہ آور اشياء اور نہ ہى خنزير كے گوشت كا كاروبار شامل ہو.
دن اسى طرح گزرتے رہے اور كچھ مدت بعد خاوند كہنے لگا كہ وہ پيزا ہوٹل كھولےگا اور كچھ رقم لے لى، ليكن اس نے ميرى نصيحت پر كوئى عمل نہ كيا اور حرام اشياء كا لين دين كرنے لگا، اس طرح يہ كاروبار ناكام ہو گيا، اور جو رقم ہم نے اس كاروباب ميں لگائى تھى وہ سارى خسارے ميں چلى گئى اور راس المال كم ہونے لگا.
ہم نے اندرون شہر مكان خري دركھا تھا جسے فروخت كر كے ہم نے اس ناكام كاروبار كو چلانے كى كوشش كى ليكن پھر بھى كامياب نہ ہو سكے اور معاملہ يہاں تك جا پہنچا كہ ہم اپنے شرخوار بچے كے ساتھ ايك كمرہ ميں رہنے لگے.
اس كے باوجود وہ مجھے ملامت كرتا ہوا كہتا ہے كہ: اس سارے عمل كا سبب ميں ہى ہوں كيونكہ ميں نے وعدہ پورا نہيں كيا، اور اسے لين دين كرنے ميں مكمل كنٹرول نہيں ديا تھا، اور ايك بار آ كر كہنا لگا: وہ ايك نيا كاروبار شروع كرنے لگا ہے، جس كے ليے مجھے ايك قصہ گھڑنے كا كہنے لگا اور اپنے والدين كو كہوں كہ وہ اسے قرض ديں، ليكن ميں نے ايسا كرنے سے انكار كرديا.
ليكن اس نے خود جا كر ميرے والد سے كچھ رقم حاصل كر لى، اور اس كے بعد ميرے ساتھ برا سلوك كرنے لگا كيونكہ ميں نے اپنے والدين كے پاس جانے سے انكار كر ديا تھا، پھر كچھ عرصہ بعد كہنے لگا:
جو گھر تم نے اپنے والدين كو ديا ہے كيوں نہ ہم يہ مطالبہ كريں كہ وہ اسے گروى ركھ ديں، تو ميں نے ايسا كرنے سے انكار كر ديا، اس ليے اس نے مجھے طلاق دى دھمكى دى اور والدين كو بتانے پر اصرار كرنے لگا، لہذا ميں نے مجبورا والدين سے بات كى تو والدہ اس پر راضى ہو گئيں ليكن والد صاحب نے ايسا كرنے سے انكار كر ديا.
بلكہ انہوں نے دھمكى دى كہ اگر اس موضوع ميں دوبارہ بات كى گئى تو وہ ميرى والدہ كو طلاق دے ديں گے، والد صاحب كہنے لگے كہ: ميرا خاوند غير ذمہ دار شخص ہے اور مال سے كھيلتا ہے، اور كسى بھى لحاظ سے اس پر بھروسہ اور اعتماد نہيں كيا جا سكتا.
اس كے رد فعل ميں ميرے خاوند نے ميرے ساتھ اور بھى زيادہ برا سلوك كرنا شروع كر ديا، اور اكثر مجھے طلاق كى دھمكى دے كر كہتا كہ وہ مجھے ميرے بيٹے سے بھى محروم كر ديگا، بلكہ اس نے ميرے والد كو بھى اذيت دينے كى دھمكى دينا شروع كر دى، اور كہنے لگا كہ بچہ اس طرح اچھى تربيت نہيں حاصل كر سكےگا، اس كے علاوہ اور كئى باتيں بھى كرتا رہا، كچھ لوگ تو كہتے ہيں كہ يہ صرف باتيں ہى ہيں، اور جو وہ كہتا ہے كريگا نہيں، ليكن ميں اپنے خاوند كو اچھى طرح جانتى ہوں؛ وہ كوئى بھى برا كام كر سكتا ہے.
اور ميرے والد كو كسى بھى وقت كوئى تكليف اور اذيت دے سكتا ہے، اس ليے آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں، آيا ميں اپنے خاوند كے سامنے سر جھكا دوں اور اس كى بات مان كر اپنے والد پر دباؤ ڈال كر گھر كو گروى ركھ دوں ( يہى آخرى چيز ہے جس كے ہم مالك رہ گئے ہيں ) تا كہ جتنى وہ رقم چاہتا ہے اسے دے سكوں ؟ يا پھر يہ بتائيں كہ اس كا مناسب حل كيا ہے ؟
اور اس كے ساتھ ساتھ آپ مجھے اپنى خالص دعاؤں ميں مت بھوليں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال كرنے والى نے سوال ميں جو كچھ بيان كيا ہے اس سے تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ اس كا خاوند مال اور كاروبار كے لين دين ميں اچھا تصرف نہيں كر سكتا، اور نہ ہى اسے اپنے ہاتھوں ميں آئے ہوئے مال كا خيال ركھنے كا كوئى سليقہ ہے.

اس ليے اس طرح كے شخص كى بيوى كو نہيں چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كو اپنا كوئى مال دے، اور نہ ہى اپنے والد كا مال لے كر دے، اور اس كى دھمكى كے سامنے بھى مت جھكے، اور اس سلسلہ ميں اس كى سچائى اور يقين كے متعلق بيوى كے تجربہ ہى كفيل ہيں كہ خاوند امانت و ديانت ميں كيسا ہے، اور اس سے بھى بڑھ كر تو اس كا دين اور مال كے لين دين ميں اپنے مالك و پررودگار كے احكام كى پابندى كرنا ہے.

اس معاملے كا بہتر اور اچھا حل تو يہى ہے كہ خاوند كے ساتھ اچھا معاملہ كيا جائے اور اسے اللہ كے تقوى و پرہيزگارى كى تلقين و نصيحت كى جائے، اور آمدن كے ليے كوئى مشروع اور جائز طريقہ تلاش كرے جس ميں دوسروں كے مال پر نظر نہ ہو بلكہ خود كمائى كرنے كا رجحان پايا جائے.

كيونكہ بيوى اور بچے كے اخراجات و نفقہ اور رہائش كى ذمہ دارى خاوند پر عائد ہوتى ہے، اور اس كے ليے اسے مشروع اور جائز كام كرنا چاہيے، اسے اللہ كى جانب سے يہى حكم ہے.

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ بعض خاوند اپنى ذمہ دارى كى قدر نہيں كرتے، اور ان كا طمع و لالچ ايك حد تك قائم نہيں رہتا، جب بيوى كے پاس مال ہو تو وہ اسے اور خرچ كرنے سے باز نہيں آتا، جو كہ برے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے اور دين كى كمزورى ہے.

اس ليے بيوى كو نہيں چاہيے كہ وہ اس سلسلہ ميں اس كا تعاون كرتے ہوئے اس كو ايسا كرنے كى ترغيب دے اور ابھارے كيونكہ عورت كو ايك مستقل مالى ذمہ حاصل ہے، اس ليے عورت پر لازم نہيں كہ وہ اپنے مال ميں خاوند كو كچھ رقم دے بلكہ عورت كو خود حق حاصل ہے كہ وہ مال كاروبار ميں لگائے اور نفع حاصل كرے، اور اسے يہ بھى حق حاصل ہے كہ وہ اپنا مال جتنا چاہے والدين كو دے چاہے خاوند ايسا كرنے كى اجازت نہ بھى دے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

آپ كى نظر ميں ايسے شخص كے بارہ ميں كيا حكم ہے جو اپنى بيوى كو زدكوب كر كے اس كا مال حاصل كرے اور بيوى كے ساتھ برا سلوك كرتا ہو ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ شخص جو اپنى بيوى كو زدكوب كر كے اس كا مال ليتا اور اس سے برا سلوك كرتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى كا نافرمان ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كرو النساء ( 19 ).

اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:

اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جس طرح ان پر ہيں اچھے طريقہ سے البقرۃ ( 228 ).

كسى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ اس طرح كا برا سلوك بھى كرے اور پھر خود اپنى بيوى سے اپنے ساتھ اچھا سلوك كرنے كا مطالبہ ركھتا ہو، كيونكہ يہ تو ظلم و ستم ہے جو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں شامل ہوتا ہے:

بڑى خرابى و ہلاكت ہے ناپ تول ميں كمى كرنے والوں كے ليے، كہ جب وہ لوگوں سے ناپ كر ليتے تو پورا ليتے ہيں اور جب انہيں ناپ كر يا تول كر ديتے ہيں تو كم ديتے ہيں المطففين ( 1 - 3 ).

چنانچہ ہر وہ انسان جو دوسروں سے اپنا حق پورا حاصل كرے اور پھر لوگوں كو ان كے پورے حقوق نہ ديتا ہو تو وہ شخص مندرجہ بالا آيت كريمہ ميں داخل ہوتا ہے.

ميں اس طرح اور اس كے علاوہ دوسرے لوگوں سے يہى نصيحت كرتا ہوں كہ وہ اپنى بيويوں كے بارہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كريں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى حجۃ الوداع كے موقع پر ميدان عرفات ميں خطبہ ديتے ہوئے فرمايا تھا:

" تم عورتوں كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو، كيونكہ تم نے انہيں اللہ كى امان كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور اللہ كے كلمہ كے ساتھ ان كى شرمگاہوں كو حلال كيا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).

اور ميں اس شخص اور اس جيسے دوسرے افراد سے يہ بھى كہتا ہوں كہ: سعادتندى و خوشبختى كى زندگى اسى صورت ميں بن سكتى ہے جب خاوند اور بيوى دونوں ايك دوسرے كے ساتھ عدل و احسان كا معاملہ كرتے ہوں، اور ايك دوسرے كى غلطى سے چشم پوشى كريں، اور ايك دوسرے كى  اچھائيوں كو مدنظر ركھتے ہوں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كوئى مومن كسى مومنہ سے بغض نہيں ركھتا؛ اگر اس كے كسے اخلاق كو برا سمجھتا ہے تو اس كے دوسرے اخلاق سے راضى ہو جاتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).

ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 487 ).

عزيز بہن: اس كے ليے ممكن ہے كہ آپ كسى نصيحت كرنے والے كى مدد حاصل كريں جو امانت و دين ميں معروف ہوں اور اسے نصيحت كريں كہ بيوى كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آنا ضرورى اور واجب ہے، اور لوگوں كے مال پر نظر نہيں ركھنى چاہيے، اور اس كے مناسب حال كے مطابق اسے كوئى كام تلاش كرنے ميں معاون ثابت ہوں.

اور اگر پھر بھى وہ اس سے باز نہيں آتا اور اپنى دھمكى پر قائم رہتا ہے تو پھر ہمارى رائے كے مطابق تو يہى ہے كہ آپ اس كى دھمكى كى كوئى پرواہ نہيں، اور باقى مانندہ اپنے مال ميں اس كى كوئى بات نہ مانيں، كيونكہ اس جيسے افراد سے كوئى بعيد نہيں كہ وہ باقى مانندہ مال بھى ضائع كر كے معاملہ نئے سرے سے شروع كر دے.

بلكہ جب آپ اور آپ كے والدين كا گھر بھى ضائع كر دے تو پھر يقينى طور پر مشكلات اور زيادہ ہونگى، اور وہ آپ كے ساتھ كھلواڑ كرے گا اور تم سب پر اس كا اور بھى زيادہ كنٹرول ہو جائيگا.

آپ اپنے پروردگار اور مالك سے مدد حاصل كرتے ہوئے صبر كريں، اور اسى كے سامنے التجا و گريہ زارى كريں، اور اپنے خاوند كى حالت كى اصلاح كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے كثرت كے ساتھ دعا كيا كريں.

اور يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس سے زيادہ قدرت ركھتا ہے، اور اس سے اعلى و برتر ہے، اور سارے معاملات اسى اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاتھ ميں ہيں.

ہم آپ كو وہى دعا كرنے كى نصحيت كرتے ہيں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كيا كرتے تھے:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ دعا كيا كرتے تھے:

" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ "

اے اللہ ميں غم و پريشانى اور عجز و كسل اور بخل و بزدلى اور قرضے اور لوگوں كے غلبہ سے تيرى پناہ طلب كرتا ہوں.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6369 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2716 ).

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب