اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

جن علاقوں ميں تاخير سے غروب شفق ہو وہاں نماز عشاء كى ادائيگى كا وقت

07-07-2012

سوال 135415

ہم كچھ سعودى طلبا يہاں برطانيا كے شہر برمنگھم ميں زير تعليم ہيں، يہاں ہميں گرميوں كى ابتدا ميں ايك مشكل درپيش ہے كہ ان ايام ميں مغرب اور عشاء كا درميانى وقفہ بہت لمبا ہو جاتا ہے، جس كى بنا پر ہر برس مسلمانوں ايك شور سا پيدا ہو جاتا ہے.
كچھ مساجد ميں تو غروب آفتاب كے ڈيڑھ گھنٹے بعد نماز عشاء ادا كى جاتى ہے، اور بعض مساجد ميں غروب شفق كا اتنظار كيا جاتا ہے، بعض اوقات يہ مدت تين گھنٹے تك جا پہنچتا ہے!! جس كى بنا پر لوگ پريشان ہو جاتے ہيں، اور خاص كر راتيں بہت چھوٹى ہوتى ہں.
ہمارے كالج كے ہوسٹل ميں اس طرح كے ايام ميں مسلمان دو جماعتيں كراتے ہيں، ايك جماعت غروب آفتاب كے ڈيڑھ گھنٹے بعد ہوتى ہے، ان كى دليل شيخ ابن عثيمين رحمہ كا ايك خطبہ ميں يہ كہنا ہے كہ:
" مغرب سے عشاء كا زيادہ سے زيادہ وقت ايك گھنٹہ بتيس منٹ ہے "
اور مملكت سعودى عرب كے ايك معروف عالم دين كے فتوى كے مطابق عمل كيا جاتا ہے.
اور تيسرى بات كہ بعض جزء تو سارى رات شفق غروب نہيں ہوتى، اور سال كے كچھ موسم ميں سارى رات شفق رہتى ہے.
بعض مساجد اور اسلامك سينٹر ميں نماز مغرب اور عشاء كے مابين ڈيڑھ گھنٹہ كے نظام پر عمل كيا جاتا ہے.
اس ليے كہ حرمين مكہ اور مدينہ ميں اسى نظام پر عمل كيا جاتا ہے.
ليكن دوسرى جماعت درج ذيل امور كى بنا پر بہت دير سے ادا كى جاتى ہے:
ـ مستقل فتوى كميٹى كا فتوى ہے كہ ہر علاقے ميں نماز اس علاقے كے شرعى وقت اور اس كى شرعى علامات كے مطابق ادا كى جائے، ( جب دن اور رات كى تميز ہو ) "
ـ سعودى عرب كے ايك اور مشہور عالم دين كے فتوى كے مطابق، جس ميں انہوں نے كہا ہے كہ ڈيڑھ گھنٹے والا نظام ايك اجتھادى غلطى ہے"
ـ اس ليے كہ بعض مساجد اور اسلامك سينٹر اس پر عمل كرتے ہيں.
ـ رابطہ عالم اسلامى كے بااعتماد كيلنڈر اور جنترى كے نظام اوقات كے مطابق.
جناب مولانا صاحب حقيقت يہ ہے كہ رابطہ عالم اسلامى كا نظام الاوقات والا كيلنڈر سال كے بعض موسموں ميں ہميں پريشانى اور مشقت ميں ڈالتا ہے، ہم نماز كے اوقات درج ذيل لنك سے ليكر نمازيں ادا كرتے ہيں:
" www.islamicfinder.org "
اس لنك پر سب كيلنڈر اور نظام الاوقات اور معروف حساب و كتاب كے طريقے موجود ہيں، اس كے ساتھ ساتھ اس ميں ذاتى طور پر تبديلى بھى ممكن ہے، يہ ديكھتے ہوئے كہ انٹرنيٹ پر اس مسئلہ ميں كوئى تفصيل حاصل بحث نہيں اور نہ ہى كوئى واضح فتوى پايا جاتا ہے ہم جناب مولانا صاحب آپ كى تفصيلى بحث اور جواب شافى كے منتظر ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس مسئلہ ميں ہمارے دلوں ميں اتحاد و اتفاق پيدا فرمائے، اور حق پر ہميں جمع كرے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علماء كرام كے ہاں نماز صحيح ہونے كى متفقہ شروط ميں نماز كے وقت كا شروع ہونا شامل ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).

شيخ عبد الرحمن سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى يہ نماز اپنے وقت پر ادا كرنا فرض كى گئى ہے، تو يہ اس كى فرضيت كى دليل ہے، اور اس كى دليل ہے كہ نماز كے ليے وقت مقرر ہے، اس وقت كے بغير نماز ادا كرنا صحيح نہيں ہوگى، اور يہ اوقات مسلمانوں كے ہاں مقرر ہيں، انہيں ہر چھوٹا اور بڑا عالم و جاہل سب جانتے ہيں " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 198 ).

دوم:

نماز مغرب كا اول وقت افق ميں سورج كى ٹكيہ غائب ہونے كے وقت ہے، اور نماز مغرب كا آخرى وقت شفق سرخى غائب ہونا ہے، اس كے غائب ہونے سے عشاء كى نماز كا وقت شروع ہو جائيگا.

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نماز مغرب كا وقت يہ ہے كہ جب سورج غائب ہو جائے اور شفق سرخى رہے، اور عشاء كى نماز كا وقت آدھى رات تك ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 612 ).

نماز كے ليے شرعى محدد كردہ اوقات نماز ان علاقوں ميں ہونگے جہاں دن اور رات چوبيس گھنٹوں كا ہو، اس ميں دن لمبا اور رات چھوٹى ہونے كو نہيں ديكھا جائيگا، بلكہ دن اور رات دونوں چوبيس گھنٹے كے ہوں، الا يہ كہ عشاء كا وقت نماز عشاء كى ادائيگى كے ليے وسعت نہ ركھتا ہو، اگر ايسا ہو كہ وقت اتنا ہو جس ميں نماز عشاء ادا نہ كى جا سكے تو پھر اس صورت ميں اس علاقے اور ملك كے قريب ترين علاقے جہاں دن و رات ميں پانچ نمازيں ادا كرنے كا وسيع وقت ہو سے اندازہ لگا كر نماز ادا كى جائيگى.

آپ كے اس مسئلہ كا علماء كرام نے بہت خيال كيا اور آپس ميں اس پر بحث بھى كى ہے، اور فتاوى جات بھى پائے جاتے ہيں، بلكہ بعض علماء كرام نے تو اس پر " جن علاقوں ميں شفق اور سرخى رات دير گئے غائب ہوتى اور طلوع فجر جلد ہو جاتى ہے ميں نماز عشاء اور سحرى ختم ہونے كا وقت " كے عنوان سے مستقل كتابچہ بھى تحرير كيا ہے.

يہ كتابچہ ايك تركى ميں استنبول ميں مركز بحوث اسلامى كے چئرمين جناب ڈاكٹر طيار آلتى قولاج كا تحرير كردہ ہے، اور اس مسئلہ ميں علماء كرام كے تين اقوال پائے جاتے ہيں:

پہلا قول:

ان علاقوں ميں نماز مغرب اور عشاء كو جمع كرنے كى رخصت پر عمل كرتے ہوئے نماز جمع كر لى جائيگى؛ كيونكہ اس ميں مشقت ہے جو بارش كى مشقت اور دوسرے عذروں سے كم نہيں جن ميں نمازيں جمع كرنا جائز ہيں.

دوسرا قول:

نماز عشاء كے وقت كا اندازہ لگايا جائيگا، اس ميں بعض علماء نے مكہ مكرمہ كو معتبر قرار ديا ہے، اس كے قائلين ميں ابھى اوپر بيان كردہ كتابچہ كے مؤلف بھى شامل ہيں.

تيسرا قول:

عشاء كى نماز كے ليے شرعى وقت كا التزام كيا جائے يعنى شفق و سرخى غائب ہونے پر ہى نماز عشاء كا وقت ہو گا، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر وہ وقت نماز كى ادائيگى كے ليے متسع ہو.

ہم اس آخرى قول كو ہى راجح سمجھتے ہيں، اور سنت نبويہ كى نصوص پر بھى اسى پر دلالت كرتى ہيں، اور يہاں كبار علماء كرام كميٹى اور مستقل فتوى كميٹى كا فتوى اور شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين وغيرہ رحمہم اللہ كا فتوى بھى يہى ہے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ محدد اوقات ان جگہوں پر ہوں جہاں رات اور دن چوبيس گھنٹوں كا ہوتا ہے، چاہے دن رات برابر ہو، يا پھر دن اور رات ميں كوئى طويل يا قصير ہو.

ليكن جہاں دن اور رات چوبيس گھنٹے كا نہيں وہاں يا تو سارا سال يہى حالت ہوگى يا پھر كچھ قليل ايام.

اگر قليل ايام ہوں مثلا جہاں سارا سال تو چوبيس گھنٹے كا دن اور رات ہو، ليكن بعض موسموں ميں اس سے زيادہ تو اس حالت ميں يا تو افق ميں بالكل ظاہر ہو جس سے وقت كى تحديد كرنا ممكن ہو، جيسا كہ روشنى زيادہ شروع ہو يا پھر بالكل ختم ہو جائے، تو پھر حكم اس ظاہر نشانى سے متعلق ہوگا.

يا پھر اس ميں كوئى واضح نشانى نہ ہو، تو پھر وہ نمازوں كے اوقات كى تحديد كے ليے وہ آخرى دن ديكھا جائيگا جس كے بعد چوبيس گھنٹوں كى رات شروع ہوئى، يا چوبيس گھنٹے كا دن شروع ہوا...

ليكن اگر كسى علاقے ميں سارا سال دن اور رات چوبيس گھنٹے نہ ہو تو پھر وہاں نمازوں كے اوقات كى تحديد چوبيس گھنٹے كے حساب سے لگايا جائيگا؛ كيونكہ صحيح مسلم ميں نواس بن سمعان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دجال كا ذكر كيا كہ آخرى زمانے ميں دجال آئيگا، تو صحابہ كرام نے دريافت كيا كہ وہ زمين ميں كتنى مدت رہےگا ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" چاليس يوم رہےگا، ايك دن تو سال كے برابر ہوگا، اور ايك دن مہينہ كے برابر، اور ايك دن ايك ہفتہ كے برابر اور باقى سارے ايام تمہارے دنوں جيسے ہونگے.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا اس سال جيسے دن ميں ہميں ايك دن كى نمازيں كافى ہونگى ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں، تم اس كے ليے اندازہ لگانا "

.... اس ليے جب يہ ثابت ہوا كہ جہاں دن اور رات چوبيس گھنٹے كا نہ ہو تو وہاں اندازہ لگايا جائيگا، تو ہم كيا اندازہ لگائيں گے ؟

بعض علماء كرام كى رائے ہے كہ اس ميں معتدل زمانے كا اندازہ لگايا جائيگا، اس طرح رات كو بارہ گھنٹے اور اسى طرح دن كے بارہ گھنٹے كا اندازہ لگائيگا؛ كيونكہ جب اس جگہ كا اس سے اعتبار كرنا مشكل ہے تو متوسط جگہ كا اعتبار كيا جائيگا، بالكل اس مستحاضہ عورت كى طرح جسے ماہوارى كى عادت نہيں اور نہ ہى تميز كر سكتى ہو.

كچھ دوسرے علماء كرام كى رائے ہے كہ اس جگہ كے قريب ترين علاقے اور ملك كے ساتھ اندازہ لگايا جائيگا جہاں دوران سال دن اور رات ہوتے ہوں؛ كيونكہ جب اس علاقے سے دن اور رات كا اندازہ لگانا مشكل ہے تو پھر اس كے مشابہ قريب ترين علاقے سے جہاں دن اور رات چوبيس گھنٹے كا ہوتا ہے اندازہ لگائيں گے.

قوى تعليل ہونے اور واقع كے قريب ترين ہونے كى بنا پر يہى قول راجح ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 / 197 - 198 ).

مملكت سعودى عرب كى كبار علماء كرام كى كميٹى كا قول بھى يہى ہے، اور مستقل فتوى كميٹى نے بھى اس كى تائيد كى ہے، ہم ان كا فتوى سوال نمبر ( 5842 ) كے جواب ميں نقل كر چكے ہيں، اس فتوى ميں ان كا درج ذيل قول ہے:

" .... اس كے علاوہ كئى ايك احاديث جن ميں نماز پنجگانہ كے اوقات كى قولى اور فعلى تحديد وارد ہے، اور ان ميں دن اور رات كے طويل اور قصير ہونے ميں كوئى فرق بيان نہيں كيا گيا، جب تك نماز كے اوقات ان علامتوں سے ممتاز ہوں جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كى ہيں " انتہى

جس علاقے ميں آپ زير تعليم ہيں اس كے حال كو ديكھتے ہوئے ہم يہ پاتے ہيں كہ اس علاقے ميں دن اور رات چوبيس گھنٹے ميں ہے، اور عشاء كى نماز وقت اتنا كم نہيں كہ اس وقت ميں نماز عشاء ادا ہى نہيں ہو سكتى، اس بنا پر آپ كے حق ميں يہ متعين ہے كہ آپ وہاں كے شرعى وقت ميں نماز ادا كريں.

سوم:

اگر عشاء كى نماز كا وقت بہت تاخير سے ہوتا ہے، يعنى اس وقت نماز عشاء ادا كرنے ميں مشقت ہے تو پھر اس صورت ميں مغرب اور عشاء كى نماز جمع تقديم كر كے ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

سوال نمبر ( 5709 ) كے جواب ميں ہم شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا درج ذيل قول نقل كر چكے ہيں:

" اور اگر شفق و سرخى فجر سے قبل غروب ہوتى ہو اور اتنا طويل وقت ہو كہ نماز عشاء ادا كرنے كے ليے وقت وسعت ركھتا ہو تو انہيں شفق و سرخى غائب ہونے كا اتنظار كرنا ہو گا، ليكن اگر ان كے ليے انتظار كرنا مشكل اور مشقت ركھتا ہو تو اس صورت ميں ان كے جمع تقديم كرتے ہوئے نماز مغرب اور عشاء جمع كر كے ادا كرنا جائز ہے؛ تا كہ تنگى و حرج اور مشقت ختم ہو سكے.... " انتہى

رابطہ عالم اسلامى كے تابع " مجمع الفقہ اسلامى " كى فيصلے جات ميں شامل ہے كہ:

" مجلس كے اعضاء نے بلند خط بلد والے علاقوں ميں نمازوں اور روزے كے اوقات كے موضوع پر بحث كى اور اس كے متعلق بعض ممبران كى جانب سے پيش كردہ شرعى اور فلكياتى سرچ اور اس كے متعلق فنى جوانب سے وضاحتى ضائچے كى سماعت كے بعد مجلس كے گيارويں اجلاس ميں درج ذيل فيصلہ كيا:

" ....

سوم: اوپر والے درجہ پر واقع مناطق كى تين اقسام ہيں:

پہلا منطقہ:

وہ علاقہ جو خط عرض كے ( 45 ) اور ( 48 ) درجہ كے مابين شمالا جنوبا واقع ہے، اور اس ميں اوقات كے ليے چوبيس گھنٹوں ميں ظاہرى علامات كى امتياز ہوتى ہے، چاہے اوقات طويل ہوں يا كم.

دوسرا منطقہ:

وہ علاقے جو خط عرض كے ( 48 ) اور ( 66 ) درجہ كے شمالا جنوبا واقع ہيں، اور يہاں سال كے كچھ ايام اوقات كے ليے بعض علامات معدوم ہوتى ہيں، مثلا شفق اور سرخى غائب نہيں ہوتى جس كے غائب ہونے سے عشاء كى نماز كا وقت شروع ہوتا اور مغرب كا وقت ختم ہوتا ہے، حتى كہ يہ سرخى فجر كے ساتھ جا ملتى ہے.

تيسرا منطقہ:

وہ علاقے جو خط عرض كے شمالا جنوبا دونوں قطبوں تك ( 66 ) كے درجہ پر واقع ہيں، اور ان علاقوں ميں طويل عرصہ تك دن يا رات كے وقت اوقات كى ظاہرى علامات معدوم ہوتى ہيں.

چہارم:

پہلے منطقہ اور علاقے ميں حكم يہ ہے كہ: اسع لاقے كے لوگ اپنے علاقے كے مطابق شرعى اوقات كے وقت نماز كى ادائيگى كرينگى، اور روزے ميں بھى شرعى وقت كا خيال ركھيں گے، تا كہ اوقات نماز اور روزہ ميں شرعى نصوص پر عمل كيا جا سكے، وہ فجر صادق سے لے كر غروب آفتاب تك روزہ ركھيں گے؛ اور جو شخص دن طويل ہونے كى بنا پر روزہ مكمل نہ كر سكے، يا پھر روزہ ركھنے سے عاجز ہو تو وہ روزہ چھوڑ بعد ميں مناسب ايام ميں روزہ كى قضاء كريگا.... " انتہى

جيسا كہ واضح ہے سوال بھى اسى حالت كے متعلق كيا گيا ہے.

اور اسلامى فقہ اكيڈمى كے دوسرے فيصلے ميں پہلے فيصلے كى تاكيد كى گئى ہے، اور اگر كسى كو عشاء كى نماز ميں مشقت ہو تو اسے نماز مغرب كے ساتھ جمع كرنے كى رخصت دى گئى ہے، ليكن اس فيصلہ ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ اسے يہ عادت ہى نہيں بنا لينى چاہيے، بلكہ صرف عذر والوں كے ليے ہوگا فيصلہ ميں درج ذيل قرار درج ہے:

" ليكن اگر نماز كے اوقات كى علامات ظاہر ہوتى ہوں اور شفق و سرخى جس كے غائب ہونے سے نماز عشاء كا وقت شروع ہوتا ہے ميں بہت زيادہ تاخير ہوتى ہو تو اكيڈمى كى رائے يہ ہے كہ نماز عشاء كى ادائيگى شرعى وقت ميں واجب ہو گى، ليكن جس ( مثلا طلباء اور ملازمين و مزدور ) كے ليے انتظار اور شرعى وقت ميں ادائيگى مشقت كا باعث ہو تو انہيں امت سے تنگى و حرج ختم كرنے والى نصوص پر عمل كرتے ہوئے مغرب و عشاء كى نمازيں جمع كرنے كى اجازت ہے.

ان نصوص ميں صحيح مسلم وغيرہ كى ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى روايت ہے جس ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر اور عصر مغرب اور عشاء مدينہ ميں بغير كسى خوف اور بارش جمع كر كے ادا كيں "

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا تو انہوں نے جواب ديا: " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ امت حرج ميں نہ پڑے "

ليكن شرط يہ ہے كہ اس علاقے اور ملك ميں سارے لوگوں كے ليے اس مدت اور عرصہ ميں نمازيں جمع كرنا اصل نہيں ہے؛ كيونكہ ايسا كرنے سے رخصت كو عزيمت ميں تحويل كرنے كا باعث بن جاتا ہے....

اور اس مشقت كا اصول اور قاعدہ عرف عام اور رواج ہے اور يہ چيز لوگوں اور جگہوں اور حالات كے اعتبار سے مختلف ہوتى ہے " انتہى

انيسواں اجلاس منعقدہ ( 22 ـ 27 شوال ) الموافق ( 3 ـ 8 نومبر 2007 ) سيكٹريٹ رابط عالم اسلامى مكہ مكرمہ سعودى عرب.

دوسرى قرار اور فيصلہ:

چہارم:

نماز مغرب اور عشاء كے مابين ايك گھنٹہ بتيس منٹ كى تحديد نہ تو ہميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے ملى ہے اور نہ ہى كسى اور سے، اوپر شيخ رحمہ اللہ كى ہم نے جو كلام بيان كى ہے اس ميں اس قول كو شيخ نے بيان نہيں كيا، اور نہ ہى اسے راجح قرار ديا ہے.

ہو سكتا ہے شيخ رحمہ اللہ سے نقل كرنے كو غلطى لگى ہو، اور شيخ رحمہ اللہ نے تو سعودى عرب يا متوسط علاقوں ميں جو عام طور پر وقت چل رہا ہے اسے بيان كيا ہو يہ بات زيادہ قريب لگتى ہے، ذيل ميں ہم شيخ رحمہ اللہ كى كلام ذكر كرتے ہيں:

" حقيقت ميں عشاء كى نماز كا وقت اذان كے ساتھ مخصوص نہيں؛ كيونكہ سال ميں بعض اوقات بعض موسموں ميں عشاء كى نماز كا وقت مغرب كے بعد ايك گھنٹہ اور پندرہ منٹ بھى ہوتا ہے، اور بعض اوقات ايك گھنٹہ بيس منٹ اور بعض اوقات ايك گھنٹہ پچيس منٹ اور بعض اوقات ايك گھنٹہ تيس منٹ، يہ مختلف موسموں ميں مختلف ہوتا ہے، اس ليے سب موسموں ميں اسے ايك ہى وقت ميں ضبط كرنا ممكن نہيں "

ماخوذ از جلسات رمضانيۃ.

ب ـ اور شيخ رحمہ اللہ يہ بھى كہتے ہيں:

" نماز مغرب كا وقت غروب آفتاب سے ليكر شفق و سرخى غائب ہونے تك ہے، يہ بعض اوقات ڈيڑھ گھنٹہ مغرب اور عشاء كا مابينى وقت ہوتا ہے، اور كبھى ايك گھنٹہ بيس منٹ اور كبھى ايك گھنٹہ اور كبھى ايك گھنٹہ دس منٹ يعنى مختلف وقت ہوتا ہے " انتہى

ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 7 / 338 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

1 ـ جن علاقوں اور ملكوں ميں دن اور رات چوبيس گھنٹوں كا ہوتا ہے وہاں نمازوں ميں ان كے شرعى اوقات كا التزام كرنا واجب ہے، چاہے رات لمبى ہو يا چھوٹى.

2 ـ جن علاقوں اور ملكوں ميں دن اور رات چوبيس گھنٹوں كا نہيں ہوتا وہاں اس علاقے كے قريب ترين علاقہ جہاں دن اور رات ہو كے مطابق نمازوں كے اوقات كا التزام كيا جائيگا.

3 ـ جن علاقوں اور ملكوں ميں شفق اور سرخى فجر تك رہتى ہے، يا پھر غائب تو ہوتى ہے ليكن يہ وقت نماز عشاء كے ليے وسيع نہيں ہوتا، يعنى اس ميں نماز ادا كرنا مشكل ہو تو پھر اس كے قريب ترين علاقے جہاں نماز كے ليے وسيع وقت ہو كے مطابق التزام كيا جائيگا.

4 ـ عذر ركھنے والے افراد كے ليے اگر عشاء كى نماز كا انتظار كرنا مشكل ہو تو وہ مغرب اور عشاء كى نماز جمع كر كے ادا كر سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

نماز کے اوقات
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔