"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
آپ كا اپنى بيوى كو يہ كہنا كہ: " تم لوگوں كو شامل كرو اور خود نكل جاؤ "
اور آپ كا يہ كہنا: " تم نكل جاؤ "
يہ طلاق كے صريح الفاظ ميں شامل نہيں ہوتے، بلكہ يہ كنايہ كے الفاظ ہيں جن ميں طلاق كا بھى احتمال ہے اور طلاق كا احتمال نہيں بھى ہے.
كنايہ كےالفاظ ميں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ اگر طلاق كى نيت نہ ہو تو ان الفاظ سے طلاق واقع نہيں ہوتى، اگرچہ يہ الفاظ جھگڑے اور غصہ كى حالت ميں بھى كہے جائيں، اس ميں راجح يہى ہے كہ طلاق واقع نہيں ہوتى.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 136438 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس بنا پر جب آپ نے يہ الفاظ بولتے وقت طلاق كى نيت نہيں كى تھى تو طلاق واقع نہيں ہوئى، اور اگر يہ الفاظ بولتے وقت آپ نے طلاق كى نيت كى تھى تو آپ كى مشكل حل كرنے كے ليے لوگوں كے داخل ہونے كى صورت ميں ايك طلاق واقع ہو جائيگى اور اس ميں آپ كو رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، اور اگر لوگ دخل اندازى نہ كريں تو پھر كچھ نہيں ہوگا.
جو شخص بھى طلاق كنايہ كے الفاظ استعمال كرے اور اسے شك ہو كہ پتہ نہيں اس نے طلاق كى نيت كى تھى يا نہيں تو طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ اصل ميں طلاق نہيں ہے.
يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا چاہيے كہ اس نيت كو وسوسہ كا نام نہيں ديا جاتا ـ جو نيت يقينى طلاق كى ہو يا پھر طلاق نہ دينے كى يا پھر تردد ميں ہو ـ بلكہ وسوسہ تو معاملہ كے تكرار كو كہا جاتا ہے، مثلا يہ كہ جب بھى وہ كوئى معين كلمہ كہے يا كسى چيز كے متعلق سوچے تو وہ گمان كرے كہ اس نے اس سے بيوى كو طلاق دے دى ہے.
جب آدمى وسوسہ كى حالت كو پہنچ جائے تو طلاق واقع نہيں ہوتى، جيسا كہ سوال نمبر ( 62839 ) اور ( 83029 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.
ليكن جب انسان وسوسہ كى حد كو نہ پہنچا ہو اور طلاق كنايہ كى كلام كرے تو اسے اپنى ني تكو ٹٹولنا چاہيے اگر تو طلاق كى نيت تھى تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر طلاق كى نيت نہ تھى تو طلاق واقع نہيں ہوگى.
واللہ اعلم .