الحمد للہ.
اول:
آپ كا اپنى بيوى كو " بس تم اس كے ساتھ رہو " كہنے ميں طلاق كا بھى احتمال ہے اور طلاق كا احتمال نہيں بھى، بلكہ يہ الفاظ طلاق كى بجائے دوسرے معنوں ميں زيادہ ظاہر ہيں اور يہ الفاظ كنايہ كے الفاظ ميں شامل ہوتا ہے جس سے نيت كے بغير طلاق واقع نہيں ہوتى، چاہے قرينہ پايا گيا ہو يا يا قرينہ نہ ہو راجح يہى ہے.
زاد المستقنع ميں ہے:
" كنايہ والے لفظ سے طلاق واقع نہيں ہوتى الا يہ كہ كوئى قرينہ ايسا ہو جو الفاظ كے ساتھ ملا ہو، ليكن جھگڑے يا غصہ يا پھر بيوى كے سوال كے جواب ميں " انتہى مختصرا
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس كى شرح ميں كہتے ہيں:
" يہ تين حالات ہيں جہاں كنايہ والے الفاظ سے بغير نيت كے طلاق واقع ہو جاتى ہے، چنانچہ مؤلف كا قول: " جھگڑے كى حالت ميں " يعنى بيوى كے ساتھ جھگڑا ہو تو خاوند كہے جاؤ اپنے ميكے چلى جاؤ، تو طلاق واقع ہو جائيگى چاہے اس نے نيت نہ بھى كى ہو، كيونكہ ہمارے پاس قرينہ ہے كہ اس بيوى كو عليحدہ كرنے كا ارادہ كيا تھا.
اور يہ قول: " يا غصہ كى حالت ميں " يعى غصہ كى حالت ميں چاہے وہ جھگڑے كے بغير ہو مثلا وہ اسے كسى كام كا حكم دے كہ تم يہ كام كرو تو بيوى وہ كام نہ كرے اور خاوند غصہ ہو كر كہے: جاؤ اپنے گھر والوں كے پاس چلى جاؤ، تو طلاق واقع ہو جائيگى چاہے وہ نيت نہ بھى كرے.
اور يہ قول: " بيوى كے سوال كے جواب ميں " يعنى بيوى كہتى ہے كہ مجھے طلاق دے دو، تو خاوند كہے جاؤ اپنے گھر والوں كے پاس چلى جاؤ تو طلاق واقع ہو جائيگى...
ليكن صحيح يہ ہے كہ كنايہ والے الفاظ سے نيت كے بغير طلاق واقع نہيں ہوتى، حتى كہ ان حالات ميں بھى؛ كيونكہ ہو سكتا ہے انسان بيوى كو غصہ كى حالت ميں كہے كہ نكل جاؤ، يا اس طرح كے اور الفاظ اور اس كى نيت ميں مطلقا طلاق دينے كا ارادہ نہ تھا... " انتہى
ديكھيں الشرح الممتع ( 13 / 75 ).
آپ كو چاہيے كہ آپ وسوسہ سے طلاق كے بارہ ميں اس كى بات قبول كرنے سے اجتناب كريں كيونكہ وسوسہ بہت برى بيمارى اور شر ہے.
دوم:
آپ كا اپنى بيوى كے بارہ ميں غيرت كرنا بہت اچھى بات ہے، اور اس كے بہنوئى كا آپ كى بيوى كے ساتھ خط و كتاب سے روكنا آپ كے ليے مشروع ہے، اور بيوى كو چاہيے كہ وہ آپ كى بات كو تسليم كرے، كيونكہ اس كا بہنوئى اس كے ليے اجنبى اور غير محرم ہے.
اور وہ اس كے بھائى جيسا نہيں جيسا كہ كہا جاتا ہے، اس ليے اس كے ساتھ نہ تو خلوت كرنا جائز ہے، اور نہ ہى اس سے مصافحہ كرنا، اور اس كے سامنے بغير پردہ كيے آنا بھى جائز نہيں، اور يہ بھى جائز نہيں كہ اس كے ساتھ بات چيت ميں لچك اور نرم رويہ اختيار كيا جائے، بلكہ بوقت ضرورت اس كے ساتھ صرف مقصد كى بات كى جائے اور ہنسى مذاق سے اجتناب كيا جائے.
اور موبائل كے ذريعہ ايك دوسرے كو ميسج كرنا ايك قسم كا تساہل ہے اور عدم ضبط ہے، جو فتنہ و فساد كى طرف لے جانے كا باعث بن سكتا ہے، چاہے كوئى نيك وصالح شخص ہى ہو، اس ليے اہل علم كى ايك جماعت نے صراحتا بيان كيا ہے كہ مرد و عورت كے مابين مراسلہ و خط و كتابت كرنا حرام ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كسى بھى انسان كے ليے كسى اجنبى اور غير محرم عورت كے ساتھ خط و كتابت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں فتنہ و خرابى پائى جاتى ہے، اور بعض خط و كتابت كرنے والے يہ خيال كرتے ہيں كہ اس ميں كوئى فتنہ و فساد اور خرابى نہيں، ليكن شيطان ہميشہ اس مرد كو بھى اور اس عورت كو بھى گمراہ كر كے چھوڑےگا "
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو حكم ديا ہے كہ جو كوئى بھى دجال كے متعلق سنے تو وہ اس سے دور رہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى ہے كہ وہ شخص دجال كے پاس آئيگا تو مومن ہوگا، ليكن دجال اس كو مستقل گمراہ كرتا رہےگا حتى كہ اسے فتنہ ميں ڈال دےگا.
اس ليے نوجوان لڑكے اور لڑكيوں كا آپس ميں خط وكتاب كرنا بہت زيادہ خطرناك ہے، اس سے اجتناب كرنا ضرورى ہے اگرچہ سائل يہ كہے كہ اس خط و كتاب ميں عشق و محبت تو نہيں " انتہى
فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 578 ).
اور شيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ سے اجنبى اور غير محرم عورت كے ساتھ خط و كتابت كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" يہ عمل جائز نہيں؛ كيونكہ اس سے دونوں ميں شہوت ميں انگيخت پيدا ہوتى ہے، اور يہ احساسات كو ابھارتا ہے حتى كہ ملاقات اور ٹيلى فون پر بات چيت كا باعث بنتا ہے، اور اس خط و كتابت سے بہت زيادہ فتنہ پيدا ہوتا ہے اور دل ميں زنا كى محبت پيدا ہوتى ہے جس سے فحاشى كا ارتكاب ہوتا ہے يا اس كا سبب بنتى ہے.
اس ليے ہم ہر اس شخص كو جو اپنے آپ كى مصلحت چاہتا ہے نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنے آپ ك واس خط و كتابت سے محفوظ ركھے اور ٹيلى فون كالوں سے اپنے آپ كو بچائے، تا كہ دين كى بھى حفاظت ہو اور عزت بھى محفوظ رہے"
اللہ ہى توفيق دينے والا ہے" انتہى
سابقہ بالا مصدر سے ماخوذ.
اس ليے ہمارى آپ كى بيوى كو يہى نصيحت ہے كہ وہ اپنے موبائل كا نمبر تبديل كر دے، يا پھر اپنى بہن كو كہے كہ وہ اپنے خاوند كو بتا دے كہ ان موبائل ميسج سے باز آ جائے، تا كہ يہ باب بند كيا جاسكے، اور فتنہ و خرابى كو روكا جا سكے، اور خاوند كا اپنى بيوى كے بارہ ميں غيرت كے حق كا خيال ركھے اور اپنى اور اپنے گھر والوں كى عزت كا بھى خيال كرے.
ہميں يہ بھى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كى بيوى نے اپنے بہنوئى كے ساتھ بات چيت كرنے يا اس كے ساتھ بيٹھنے ميں تساہل سے كام ليا ہے، اسى ليے اس نے اس كے ساتھ تعارف كيا اور اس كا موبائل نمبر بھى ليا اور وہ اس كو ميسج ارسال كرنے لگا، اور يہ چيز حرام ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
واللہ اعلم .