"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
نماز اشراق یا چاشت کے بارے میں وارد شدہ صحیح احادیث کونسی ہیں؟.
الحمد للہ.
اول:
نماز اشراق یا چاشت سنت مؤکدہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نماز پڑھنا ثابت ہے، جیسے کہ مسلم: (1176) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز چار رکعت پڑھا کرتے تھے، اور پھر جتنی اللہ تعالی توفیق دیتا تو آپ اس سے زیادہ بھی ادا کرتے تھے)
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دلاتے، جیسے کہ درج ذیل احادیث میں اس کا بیان ہوگا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (11/389) میں کہتے ہیں کہ:
"چاشت کی نماز سنت مؤکدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہ نماز پڑھی ہے، اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دلائی " انتہی
ہماری ویب سائٹ پر نماز اشراق یا چاشت کی شرعی حیثیت ، اور اس کی ادائیگی کے افضل وقت کے بارے میں تفصیل گزر چکی ہے، اس کیلئے آپ سوال نمبر: (129956) اور (22389) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
نمازِ اشراق کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث وارد ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہے، چنانچہ "سبحان اللہ" کہنا صدقہ ہے، "الحمد للہ" کہنا صدقہ ہے، "لا الہ الا اللہ" کہنا صدقہ ہے، "اللہ اکبر" کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے، اور اس صدقے سے اشراق کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں) مسلم: (1181)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (وَيَجْزِي مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعهُمَا مِنْ الضُّحَى)[یعنی: اور اس صدقے سے اشراق کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں] میں " وَيَجْزِي " کو پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ [پہلی]"یا" پر پیش پڑھی جائے تو اسکا مطلب ہوگا: قائم مقام ہونا، [یعنی: یہ دو رکعتیں صدقے کے قائم مقام ہو جائیں گی] یا پھر اس پر زبر پڑھی چائے، تو اسکا مطلب ہوگا: کافی ہونا، [زبر پڑھنے کی صورت میں] اللہ تعالی کا فرمان: لَا تَجْزِي نَفْسٌ کوئی جان کافی نہ ہوگی[البقرة : 123] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (تمہارے بعد کسی کیلئے کافی نہ ہوگا) اسی معنی سے تعلق رکھتا ہے، یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چاشت کی نماز کی کتنی فضیلت ہے، اور اسکا کتنا بڑا مقام ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اشراق کی نماز دو رکعتیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں" انتہی ماخوذ از امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب: "شرح مسلم "
2- بخاری: (1178) اور مسلم: (720) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں انہیں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا: ہر ماہ تین دن کے روزے، اشراق کی نماز، اور وتر پڑھ کر سونا"
3- ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "مجھے میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں جب تک زندہ رہونگا ان پر عمل پیرا رہونگا: ہر ماہ میں تین روزے، نماز اشراق، اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں" مسلم: (1183)
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابو درداء، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کو وصیت نماز اشراق کی فضیلت، عظیم ثواب، اور تاکیدی عمل ہونے پر دلالت کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس عظیم ثواب کے حصول کیلئے انہوں نے اسے کبھی نہیں چھوڑا" انتہی
"المفهم لما أشكل من تلخيص مسلم"
3- ابو درداء اور ابو ذر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (ابن آدم! میرے لئے دن کے ابتدائی حصہ میں چار رکعات پڑھو، آخری حصہ میں میں تمہیں کافی ہو جاؤنگا) ترمذی: (437) اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور " دن کے ابتدائی حصہ " سے مراد ایک قول کے مطابق نماز اشراق ہے، اور ایک قول کے مطابق نماز ضحی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فجر کی سنتیں اور فرض مراد ہیں؛ کیونکہ شرعی طور پر دن کی ابتدا صبح سے ہی ہوتی ہے۔
مبارکپوری کہتے ہیں :میرے مطابق امام ترمذی اور ابو داود رحمہما اللہ نے ان چار رکعتوں سے مراد نماز اشراق ہی لی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو نماز اشراق کے باب میں ذکر کیا ہے۔
حدیث کے الفاظ: " میں تمہیں کافی ہو جاؤنگا " یعنی جو تمہاری ضروریات ہیں پوری کرونگا۔
اسی طرح : " آخری حصہ میں " یعنی دن کے آخری حصہ میں۔
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اسکا مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری ضروریات، اور حاجات کیلئے کافی ہو جاؤنگا، تمہاری چار رکعتوں سے فراغت کے بعد تمہیں پہنچنے والی ہر ناپسندیدہ چیز سے تمہارا دفاع کرونگا"
یعنی مطلب یہ ہے کہ میری عبادت کیلئے دن کے ابتدائی حصہ میں تم وقت نکالو، میں دن کے آخری لمحے میں تمہاری حاجت روائی کر کے ذہنی اطمینان دونگا"انتہی
"تحفۃ الأحوذی" (2/478)
4- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نمازِ اشراق کی صرف اوّاب[رجوع کرنے والا، توبہ کرنے والا] ہی پابندی کرتا ہے، اور یہی صلاۃ الاوّابین ہے) ابن خزیمہ نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الترغيب والترهيب" (1/164)
5- انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی، پھر سورج طلوع ہونے تک ذکر الہی میں مشغول رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو یہ اس کیلئے مکمل ، مکمل، مکمل حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہونگی) ترمذی: (586) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح سنن ترمذی " میں حسن کہا ہے ۔
مبارکپوری رحمہ اللہ "تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی" (3/158) میں کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : " پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں " یعنی سورج طلوع ہونے کے بعد۔
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ : نیزے کے برابر سورج طلوع ہونے کے بعد جب مکروہ وقت ختم ہو گیا تو دو رکعت ادا کیں، اس نماز کو نماز اشراق کہا جاتا ہے، جو کہ نماز ضحی کی ابتدائی صورت ہے" انتہی
واللہ اعلم.