"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میرا سود کے بارے میں سوال ہے، میرے گھرانے کے تمام افراد مسلمان ہیں اور ہم سب مغربی یورپ میں رہائش پذیر ہیں، میں جامعہ کے پہلے سال کا طالب علم ہوں، جس ملک میں میری رہائش ہے یہاں پر ایک قرض دیا جاتا ہے جسے "معاشی قرض" کہتے ہیں، قرض طلبا کو دوران تعلیم اخراجات پورے کرنے کیلیے دیا جاتا ہے، یہ قرض تعلیمی فیسوں کیلیے نہیں ہو تا بلکہ دیگر ضروریات پوری کرنے کیلیے ہوتا ہے، اس قرض کی خامی یہ ہے کہ یہ سودی قرض ہوتا ہے لیکن اس میں سود کا تناسب انتہائی معمولی ہوتا ہے، نیز اس کی ادائیگی پکی ملازمت ملنے کے بعد کرنی ہوتی ہے ، چنانچہ ایسا بھی ممکن ہے کہ قرض کی ادائیگی دس سال سے بھی مؤخر ہو جائے، اسی ایک خوبی کی وجہ سے اس قرض کو لینے کیلیے سب رغبت کرتے ہیں۔
مجھے اللہ کے فضل سے اس قرض کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ میری مالی حالت اچھی ہے اور جامعہ کی جانب سے میرا وظیفہ بھی مقرر ہے، لیکن میرے والد صاحب نے مجھے بتلایا ہے کہ معمولی سود کی وجہ سے میں یہ سودی قرض لے سکتا ہوں، ان کا کہنا ہے کہ میں یہ قرضہ لے کر انہیں کاروبار کیلیے دے دوں، لیکن مجھےسود کے خطرات کا بخوبی علم ہے، تو اب میں کیا کروں؟ اور اگر میں ایسا کرتا ہوں تو کیا مجھے گناہ ہو گا؟
الحمد للہ.
چاہے سود کی مقدار کتنی ہی کم ہو آپ کیلیے یہ سودی قرض لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے سودی معاہدے کو ہی حرام قرار دیا ہے چاہے سود کی مقدار کم ہو یا زیادہ چاہے ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالی نے سود کھانے اور کھلانے والے دونوں کو سخت عذاب اور لعنت کی دھمکی دی ہے، اس لیے اپنے آپ کو ان لوگوں میں شامل کرنے سے بچاؤ، فرمانِ باری تعالی ہے:
( الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [275] يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ[276] إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [277] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ [278] فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ [279] وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ [280] وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ)
ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ) ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے [275] اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا [276] البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے، نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے [277] اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو [278] اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر (سود سے) توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے [279] اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ دو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو [280] اور اس دن سے ڈر جاؤ۔ جب تم اللہ کے حضور لوٹائے جاؤ گے۔ پھر وہاں ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا [سورة البقرة :275-281]
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھی فرمائی ہے: (سود کھانے والے اور کھلانے والے پر [اللہ تعالی کی لعنت ہو]) بخاری: (5962)
لہذا والد صاحب کی اس بات کو ماننا آپ پر لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی بات ماننا والد کی بات ماننے اور اطاعت کرنے سے زیادہ ضروری ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے، اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے) مسلم: (1840)
مزید کیلیے سوال نمبر: (181723) اور (96613) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.