سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بینک کی جانب سے طلبا اور نئے فاضلینِ جامعہ کیلیے منافع کے ساتھ قرض کی سہولت

سوال

بینکوں کی جانب سے ایک نئے رجحان کی جانب لوگ مبتلا ہو رہے ہیں وہ یہ ہے کہ بینک طلبا اور نئے فاضلین کو جامعہ یا ملازمت کے ادارے کی ضمانت سے قرض دیا جاتا ہے، جس میں سے 60 ٪ نقدی رقم دی جاتی ہے اور 40٪ اشیا خریدنے کیلیے مختص ہوتا ہے، جس پر منافع اسی دن شروع ہو جاتا ہے جس دن رقم بینک سے نکالی گئی، اور خریدی گئی اشیا پر منافع خریداری کے دن شروع نہیں ہوتا بلکہ خریداری کے 45 دن کے بعد شروع ہوتا ہے، اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ سود ہے؟ اور اگر یہ سود ہے اور کوئی اس میں ملوث ہو چکا ہے تو اس کا کفارہ کیا ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ نے سوال میں جو صورت ذکر کی ہے یہ سودی قرض کی صورت ہے، سودی بینک ایسے لین دین کرتے ہیں، یہ سودی بینکوں کی طرف سے باطل پر اصرار اور اعلانیہ گناہ ہے اس سے  خرابیاں پیدا ہوتی ہیں؛ اللہ تعالی نے سودی لین دین کرنے والوں کو اعلان جنگ  کی وعید سنائی ہے، اللہ تعالی نے سودی لین دین کے جو نتائج  بتلائے ہیں ان میں کنگال ہوناوغیرہ ہیں، سودی لین دین کی وجہ سے جرائم ، حادثات، امراض اور آزمائشوں میں اضافہ ہوتا ہے، دوسری طرف کچھ غافل حضرات کی جانب سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ بینکوں کی جانب سے یہ نوجوانوں کی بہتری اور بے روز گاری  کے خاتمے کیلیے اچھا اقدام ہے، انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ سودی قرض انہیں تباہ حال، کنگال اور معاشرے کو زبو ں حال کرنے کا باعث ہے۔

شاذ و نادر کے علاوہ شروع سے لیکر اب تک  تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ کوئی بھی قرض نفع دے تو وہ سود ہے، اس لیے منافع کے بدلے میں قرضہ لینا یقینی طور پر سود ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی ایسا قرض جس میں اضافے کے ساتھ واپسی ہو تو وہ بغیر کسی اختلاف کے حرام ہے"

اسی طرح ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"سب اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر قرض خواہ مقروض سے اضافی رقم یا تحفے کی شرط لگائے اور قرض خواہ اسی شرط پر اسے قرضہ دے دے تو اضافی رقم کی وصولی عین سود ہو گی، نیز ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ: انہوں نے ہر ایسے قرض سے روکا ہے جو منافع سپر موقوف ہو" انتہی
"المغنی" (6/436)

اب یہاں پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قرض مال کی صورت میں ہو یا کسی چیز کی شکل میں یا خریداری کیلیے مہیا کی گئی رقم، ان تمام صورتوں میں منافع کی شرط لگانا حرام ہے۔

ازہر اکادمی برائے اسلامی تحقیقات کی قرار داد  جو کہ 1385 ہجری بمطابق 1965 ء میں پاس کی گئی تھی ، جس میں 35 اسلامی ممالک کے مندوبین نے شرکت کی تھی، اس میں ہے کہ:
"قرضے کی جتنی بھی اقسام ہیں ان پر منافع لینا سود اور حرام ہے، اس میں کسی صارف یا کسی کمپنی کو دیئے جانے والے قرض میں کوئی فرق نہیں ہے؛ کیونکہ کتاب و سنت کی نصوص دونوں ہی ان کے حرام ہونے کا قطعی ثبوت دیتی ہیں۔۔۔ فکسڈ ڈیپازٹ اکاؤنٹ (fixed deposit account)اور متعین منافع کے بدلے اعتبار نامہ (Letter of credit)جاری کروانا،  سب کے سب سودی اور حرام لین دین ہیں" انتہی

اسلامی تعاون تنظیم کے  تحت قائم اسلامی فقہ اکیڈمی کا سن 1985ء میں اجلاس ہوا اس کی قرار دادوں میں ہے کہ:
" قرضہ کی ادائیگی کا وقت آنے پر مقروض شخص اسے ادا نہ کر سکے اور اسے مزید مہلت دینے کے بدلے میں قرضے پر اضافہ یا منافع کسی بھی شکل میں لینا حرام ہے، اسی طرح کوئی بھی اضافہ یا منافع جس پر طرفین قرض کا لین دین کرتے ہوئے ابتدا میں ہی معاہدہ کر لیں اس کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ یہ دونوں صورتیں شرعی طور پر حرام ہیں " انتہی

دوم:

اگر کوئی شخص سودی قرض میں پھنس گیا ہے تو اس کیلیے اللہ تعالی سے سچی توبہ مانگنا واجب اور ضروری ہے، اپنے ماضی کے اقدامات پر پشیمان ہو، اور آئندہ کبھی بھی ایسا نہ کرنے کا عزم کرے، لہذا اگر وہ قرض کی رقم جلد از جلد ادا کر کے سود کے چنگل سے چھٹکارا پا لے تو یہ بہتر ہو گا۔
ہم اللہ تعالی سے عافیت کے طلب گار ہیں۔

مقروض شخص کیلیے صرف وہی رقم ادا کرنا ضروری ہے جو بطور قرضہ اس نے وصول کی تھی۔

لیکن افسوس کہ مقروض ایسا نہیں کر سکتا، اسے لازمی طور پر سودی منافع بھی ادا کرنا ہوتا ہے، لہذا اگر وہ سودی قرضے سے توبہ کر بھی لے تو مجبوری کی بنا پر اسے ادا کرنا پڑے گا، لہذا آئندہ سودی قرضہ نہ لینے کا عزم کرے۔

اللہ تعالی توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ  ہمیں اور آپ کو سود کے خطرات اور نقصانات سے محفوظ فرمائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب