"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میري گزارش ہے کہ آپ مجھے حج اوراس کے مشاعر کی تاريخ کے بارہ میں بتائيں ، اس کی مثال یہ ہے کہ مسلمان صفا اورمروہ کے مابین سعی کرتے ہیں جوکہ ام اسماعیل ھاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کی تھی ، لیکن اس کےعلاوہ باقی چيزوں کے بارہ میں مجھے علم نہيں لھذا میری گزارش ہے کہ اس کے بارہ میں معلومات فراہم کریں ۔
مثلا جمرات کوکنکریاں مارنا ، طواف کرنا ، میدان عرفات میں وقوف اورزمزم کا پانی پینا ، منی اورمزدلفہ میں رات بسر کرنا ، قربانی کرنا ۔۔۔ الخ معلومات فراہم کرنے پرآپ کاشکریہ ۔ ؟
الحمد للہ.
اہل اسلام کےمابین شروع سے لیکرآج تک سلف اورخلف سب کے ہاں اس پراتفاق اوراجماع ہے کہ بیت اللہ کا حج دین اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے ، جیسا کہ صحیحین میں ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما وغیرہ کی حدیث سے واضح ہے ۔
اوریہ بھی معروف ہے کہ حج بھی ساری عبادات کی طرح ایک عبادت ہے جس کے کچھ خاص اعمال ہے اوریہ اعمال اپنی ایک حیثیت اورھیئت رکھتے ہیں جنہیں صحیح طریقہ کے مطابق بجالانا واجب ہے مثلامیقات سے احرام باندھنا ، طواف ، اورصفامروہ کے مابین سعی کرنا ، وقوف عرفات ، مزدلفہ میں رات بسرکرنا ، اورجمرات کوکنکریاں مارنا اورقربانی ذبح کرنا ، اوراس کے علاوہ باقی حج کے معروف اعمال میں سے ۔
لھذا ان اعمال میں واجب اورضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ان اعمال کوکیا جائے ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے طریقہ میں بہت ساری احاديث مروی ہیں ، اورامام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب زادالمعاد اورحافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب البدایۃ والنھایۃ میں ان احادیث کوجمع کرنے اوران سے نکلنے والے احکامات کے متعلق بہت زيادہ وسیع اورپرحاصل بحث کی ہے ، اورمسلمان کوچاہیے کہ وہ ان احکام کوجاننے اوران پرعمل کرنے کا اہتمام کرے ۔
پھریہ بھی علم ہونا چاہیے کہ حج میں کیے جانے والے اعمال کا اساسی اوربنیادی مقصد تواللہ تعالی کا ذکرکرنا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
{ جب تم عرفات سے لوٹو تومشعرحرام کے پاس ذکر الہی کرو ، اوراس کا ذکر ایسے کرو جیسے کہ تمہيں اس نے ھدایت دی ہے ، حالانکہ تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے ۔
پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں ، اوراللہ تعالی سے بخشش طلب کرتے رہو یقینا اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے ۔
پھر جب تم ارکان حج ادا کرچکوتواللہ تعالی کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباءواجداد کا ذکرکیا کرتے تھے ، بلکہ اس سے بھی زيادہ ، بعض لوگ وہ بھی ہیں جوکہتےہیں اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں دے ، ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئي حصہ نہيں ۔۔۔۔۔}
حتی کہ اللہ تعالی نے کچھ آيات کے بعد یہ فرمايا :
اوران چند گنے چنے دنوں ( ایام تشریق ) میں اللہ تعالی کویاد کرو ، دو دن کی جلدی کرنے پربھی کوئي گناہ نہيں ، اورجوپیچھے رہ جائے اس پربھی کوئي گناہ نہیں ، یہ پرہيزگار کے لیے ہے ، اوراللہ تعالی سے ڈرتے رہو اورجان رکھو کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے البقرۃ ( 198 - 203 ) ۔
اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ : بیت اللہ کا طواف اورصفا مروہ کے مابین سعی اورجمرات کوکنکریاں مارنا اللہ تعالی کے ذکر کےلیے مقرر کیا گيا ہے ۔
امام بیھقی رحمہ اللہ نے اسے تعلیقا بیان کیا ہے اورمرفوع بھی روایت کیا گيا ہے لیکن اس روایت میں ضعف ہے دیکھیں البیھقی ( 5 / 145 ) ۔
اورمسلمان توارکان حج اوراعمال حج کی تعظیم ہی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے بھی اسے اس کی تعظيم کا حکم دیا ہے ، جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
یہ اوراب اورسنو ! اللہ تعالی کی نشانیوں کی جوبھی عزت وحرمت کرے یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے الحج ( 32 ) ۔
اورامام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حجراسود کا بوسہ لیا اورفرمایا :
اگرمیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تومیں تیرا کبھی بھی بوسہ نہ لیتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1610 ) ۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی اعمال حج کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں :
پھریہ اشیاء توزائل ہوگئيں لیکن ان کےآثار اوراحکام باقی رہ گئے اورہوسکتا ہے جس نے اس کی صورت دیکھی اوراسے اس کے اسباب کا علم نہ ہوسکا تواس پران امورمیں اشکال پیدا ہوا ہو تووہ کہنے لگے : اس کا توکوئي معنی اورمقصدہی نہیں ، لھذا میں نے آپ کےلیے نقل کے اعتبارسے اسباب بیان کردیےہیں ، اوراب میں آپ کےلیے معنی میں بھی آسانی پیدا کرتے ہوئےایک قاعدہ بتاتا ہوں جس پرتواس کی بنیاد رکھ سکتا ہے ۔
آّپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ عبادت کی اصل معقول ہے، اوروہ بندے کی اپنے مولا ومالک سبحانہ وتعالی کےلیے عاجزی وانکساری وذلت ہے ، لھذا نمازمیں وہ عاجزی وانکساری اوررب ذوالجلال کے سامنے ذلت کا اظہارہےجس سے عبادت کا معنی سمجھا جاسکتا ہے ۔
اورزکاۃ میں نرمی ومہربانی اورخیرخواہی کا معنی سمجھا جاسکتا ہے ۔
اورروزے میں نفس کی شھوت کوختم کرنا اورتوڑنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کے لیے مطیع اورتیارہو ۔
اوربیت اللہ کے شرف اوراسے نصب کرنے میں کوئي مقصد ہے اوراس کے ارد گرد کے علاقہ کواس کی تعظیم کے لیے حرم کا درجہ دیا گيا ہے ، اوروہاں مخلوق کا پراگندے اوربکھرے ہوئے بال لیے ہوئے آنا ایسے ہی ہے جیسے ایک غلام اپنے آقاومولا کے سامنے ذلیل اورعذرپیش کرتے ہوئے پیش ہوتا ہے ، اوراس معاملے کی سمجھ بھی آرہی ہے ۔
اورنفس عبادت کرنے پر مانوس ہوتا ہے جواسے سمجھ آتی ہے ، تواس طرح اس کی طبعیت کا اس کی طرف میلان اس فعل کے کرنے اوراسے سرانجام دینے کا باعث بنتا ہے ، لھذا اس کے لیے ایسے کام مقرر کیے گئے جسے وہ نہيں سمجھتا تا کہ اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں کوئي کمی نہ ہواوروہ مکمل ہوجائے مثلا سعی اوررمی جمرات کرنا ۔
کیونکہ اس میں نفس کا کوئي حصہ نہیں ، اورنہ ہی طبعیت کا اس میں میلان اورانس ہے ، اورنہ ہی عقل اس کے معنی کوپہنچ سکتی ہے ، تواس میں صرف اورصرف اطاعت وفرمانبرداری اورسرتسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئي اورسبب نہیں اورباعث نہيں ، تواس وضاحت سے آپ کوعبادات غامضہ کے اسرارورموز سے وافقیت حاصل ہوسکتی ہے ۔ اھـ دیکھیں : مثیر العزم الساکن ( 1 / 285 - 286 ) ۔
جب اس کی وضاحت ہوچکی توپھراکثر اعمال حج میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کی تاریخ ہمیں معلوم نہيں ، اوریہ ایسے امور ہیں جن کی جہالت یعنی جن کی لاعلمی کا کوئي نقصان نہيں ، اوراس میں کچھ امور ایسے بھی ہیں جن کی تاریخ بعض نصوص میں ملتی بھی ہے ، ذیل میں ہم اس میں کچھ کا ذکر کرتےہیں :
1 - حج کی فرضیت کب ہوئي یا پھر حج کب شروع ہوا ؟
اللہ سبحانہ وتعالی کا اس کےبارہ میں فرمان ہے :
اورلوگوں میں حج کا اعلان کردو ، لوگ تیرے پاس پاپیادہ بھی آئيں گے اوردبلے پتلے اونٹوں پر بھی دوردراز کی تمام راہوں سے آئيں گے الحج ( 27 ) ۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتےہیں :
یعنی ( اے ابراھیم ) لوگوں میں اس گھرکے حج کا اعلان کردو جس گھر کے بنانے کا ہم نے آپ کوحکم دیا لوگوں کواس کے حج کی طرف بلاؤ ، لھذا کہا جاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :
اے میرے رب میں لوگوں تک یہ بات کیسے پہنچاؤں کیونکہ میری آواز توان تک نہیں پہنچ سکے گي ؟ تواللہ تعالی نے فرمایا : تم آواز دو اوراسے پہنچانا ہمارے ذمہ ہے ، توابراہیم علیہ السلام اپنی جگہ پرکھڑے ہوئے ، اورایک قول یہ ہے کہ ایک پتھر پرکھڑے ہوئے ، اورایک قول یہ ہے کہ صفاپہاڑی پرکھڑے ہوئے ، اورایک قول یہ ہےکہ ابوقبیس پہاڑی پرکھڑے ہوئے ، اورآواز لگائي :
اے لوگو! بلاشبہ تمہارے رب نے ایک گھربنایا ہے لھذا تم اس کا حج کرو ۔
کہا جاتا ہے کہ پہاڑوں نے تواضع اختیار کی حتی کہ یہ آواز زمین کے کونے کونے میں سنی گئي ، اورجوکوئي ماں کے پیٹ اورباپ کی پشت میں تھا اسے نے بھی یہ آواز سنی ، اورجس نے بھی یہ آواز سنی چاہے وہ پتھرتھا یا درخت یا کچی اینٹ اورقیامت تک جس کے لیے اللہ تعالی نے لکھ دیا تھا کہ وہ حج کرے گا اس نے جواب دیا اورکہا لبیک اللہم لبیک ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما اورمجاھد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر اورسلف رحمہم اللہ میں سے کئي ایک سے بھی یہی منقول ہے ۔ اھـ دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 3 / 221 ) ۔
اورابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب مثیرالعزم الساکن میں اسی طرح مختصر ذکر کرکے اسے سیرت نگاروں کی طرف منسوب کیا ہے ۔ دیکھیں مثیر العزم الساکن ( 1 / 354 ) ۔
یہ تونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حج فرض ہونے کی تاريخ ہے ، اوردین اسلام میں فرضيت حج کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ حج کب اورکس سال فرض ہوا ۔
ایک قول تویہ ہے کہ : چھ ہجری میں فرض ہو ، اوربھی کہا گيا ہے کہ ساتھ ہجری میں فرض ہوا ، اورایک قول یہ بھی ہے کہ نوہجری میں فرض کیاگيا اورایک قول دس ہجری کا بھی ہے ۔
لیکن امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے بالجزم یہ بات کہی ہے کہ نویا دس ہجری میں فرض ہوا تھا وہ اپنی کتاب زاد المعاد میں کہتے ہیں :
اس میں کوئي بھی اختلاف نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد ایک حج کے علاوہ کوئي اور حج نہيں کیا اوروہ بھی حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے ، اوراس میں بھی کوئي اخلاف نہيں کہ یہ حج دس ہجری میں ہوا ۔۔۔ اورجب حج کی فرضیت نازل ہوئي تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کرنے میں جلدی کی اوراس میں ذرا برابر بھی تاخیرسے کام نہيں لیا ،اس لیے کہ حج کی فرضیت ہی نویا دس ہجری تک مؤخر رہی ہے ۔۔۔
اوراگریہ کہاجائے کہ : آپ کے پاس اس کی دلیل کیا ہے کہ حج کی فرضیت نویادس ہجری تک مؤخر رہی ؟
تواس کے جواب میں کہاجائے گا :
اس لیے کہ سورۃ آل عمران کا ابتدائي حصہ عام الوفود میں نازل ہوا ، اوراسی سال نجران کا وفد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورآپ کے ساتھ جزیہ دینے پرصلح کی ، اورجزیہ جنگ تبوک کے سال نوہجری میں نازل ہوا ، اوراس میں ہی سورۃ آل عمران کا ابتدائي حصہ بھی نازل ہوا ۔۔۔۔ اھـ
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی تفسیر قرطبی میں کہتے ہیں :
عرب کے ہاں حج معلوم ومشہورتھا ، اورجب اسلام آیا توانہيں اس سے ہی مخاطب کیا جسے وہ جانتے تھے اورجس کی انہيں معرفت تھی اسے ان پرلازم بھی کیا ۔
دیکھيں : تفسیر القرطبی ( 2 / 92 ) ، اورآپ احکام القرآن لابن العربی ( 1 / 286 ) بھی دیکھیں ۔
مزید تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 32662 ) کے جواب کا بھی مطالعہ ضرور کریں ۔
2 - بیت اللہ کا طواف :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورہم نے ابراہیم اوراسماعیل علیہم السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کوطواف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو البقرۃ ( 125 ) ۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بیت اللہ کا طواف ابراہیم علیہ السلام کے عھد مبارک سے ہی چل رہا ہے ۔
3 - رمل :
رمل یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے تیز تیز چلنا ، طواف قدوم میں مردوں کےلیے رمل کرنا سنت ہے عورتوں کےلیے نہيں اورطواف قدوم وہ طواف ہے جومکہ میں داخل ہوکرپہلا طواف کیا جائے ۔
رمل کی ابتداء کس طرح ہوئي :
امام بخاری اور امام مسلم رحمہمااللہ تعالی نے اپنی اپنی صحیح میں ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سےمندرجہ ذيل روایت بیان کی ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام مکہ مکرمہ تشریف لائے تومشرکین مکہ کہنے لگے :
تمہارے پاس ایسی قوم آرہی ہے جسے یثرب کے بخارنے کمزور کردیا ہے ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ تین چکروں میں رمل کریں ۔۔۔۔
اورایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رمل کرو تا کہ مشرک تمہارے قوت کا مشاہدہ کرلیں ۔۔۔۔
صحیح بخاری ( 2 / 469 - 470 ) حدیث نمبر ( 1602 ) صحیح مسلم ( 2 / 991 - 992 ) حدیث نمبر ( 1262 ) ۔
4 - زمزم اورصفا مروہ کے مابین سعی کرنا :
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ :
ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی ھاجر اوربیٹے اسماعیل علیہ السلام – وہ اسے دودھ پلاتی تھی – لے کرآئے اوربیت اللہ کے قریب زمزم کے اوپرایک بڑے درخت کے نیچے مسجد کے اوپروالے حصہ میں اتارا اوران دنوں میں مکہ میں کوئي بھی نہیں تھا ، اورنہ ہی وہاں پانی تھا توانہيں وہاں اتارا اوران دونوں کے پاس ایک تھیلاجس میں کھجوریں تھیں اورایک پانی کا مشکيزہ رکھا ، پھرخود وہاں سے واپس چل دیے
توام اسماعیل رضي اللہ تعالی عنہا ان کے پیچھے گئيں اورکہنے لگيں اے ابراہیم ! آپ ہمیں اس وادی میں جہاں نہ کوئي انسان ہے اورنہ ہی کوئي چيز چھوڑ کرکہاں جارہے ہيں ؟ یہ بات انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کوکئي بار کہی اورابراہیم علیہ السلام اس کی جانب پلٹ کربھی نہیں دیکھ رہے تھے ۔
تووہ کہنے لگیں کیا آپ کواللہ تعالی نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا جی ہاں ، وہ کہنے لگیں پھراللہ تعالی ہمیں ضائع نہيں کرےگا اورپھر واپس آگئيں اورابراہیم علیہ السلام وہاں سے چل دیے جب وہ اونچی جگہ پر پہنچے جہاں سے وہ انہيں دکھائي نہيں دے رہے تھے توبیت اللہ کی جانب اپنا رخ کیا اوران کلمات کہتے ہوئے دعا کرنے لگے اوراپنے ہاتھ اٹھا دیے :
اے ہمارے پروردگار ! میں اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائي ہے ، اے میرے رب یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم کریں ، پس توجوکچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اورانہیں پھلوں کی روزیاں عطا فرما تا کہ یہ تیری شکرگزاری کریں ابراہیم ( 37 ) ۔
لھذا ام اسماعیل اسماعیل علیہ السلام کودودھ پلانے لگی اورخود وہ پانی پیتی رہی حتی کہ جب مشیکزے کا پانی ختم ہوگيا تواسے بھی پیاس لگي اوراس کے بیٹے کوبھی پیاس نے ستایا تووہ بیٹے کوپاؤں مارتا دیکھنے لگي یا یہ کہا کہ الٹ پلٹ ہوتا دیکھنے لگی تواسے برداشت نہ کرسکی اوراس حالت میں دیکھنا ناپسند کرتے ہوئے وہاں سے چل دی ، اورسب سے قریب صفا پہاڑی دیکھی تواس پروادی کی جانب رخ کرکے کھڑی ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگیں کہ کوئي نظرآتا ہے جب کوئي بھی نظرنہ آیا توصفا سے اتر گئيں اورجب وادی میں پہنچی تواپنی چادر کا ایک پلو اوپراٹھا لیا اورجس طرح کوئي کوشش کرنے والا شخص دوڑتا ہے اس طرح دوڑی اوروادی پار کرلی
پھرمروہ پہاڑي پرآئي اوراس پرکھڑے ہوکر دیکھا کہ کوئي نظر آتا ہےکہ نہيں توہاں بھی کوئي نظر نہ آیا تواس طرح انہوں نے ساتھ بارایسا کیا ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تولوگوں کی صفا اورمروہ کے مابین یہی سعی ہے ۔
اورجب وہ مروہ پہاڑي پرچڑھی توایک آواز سنی توکہنے لگی چپ ، اپنے آپ سے مخاطب تھیں ، پھردوبارہ آواز سنی توکہنے لگي : میں نے تیری آواز سنی ہے اگر توتیرے پاس کوئي مدد وتعاون ہے ، تودیکھا کہ زمزم کے قریب ایک فرشتہ کھڑا ہے تواس نے اپنی ایڑی کےساتھ زمین کریدی ، یا یہ کہا کہ اپنے پر کے ساتھ زمین کریدی حتی کہ پانی نکل آیا اورام اسماعیل اس کا حوض تیار کرنے لگی اوراپنے ہاتھ سے ایسے کررہی تھی ۔
اورپانی سے چلو بھر بھر کراپنے مشکیزے میں بھرنے لگی جب وہ چلو بھرتی تووہاں سے اورپانی ابل کرباہر آجاتا ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالی ام اسماعیل پررحم فرمائے اگروہ زمزم کوچھوڑ دیتی یا یہ فرمایا کہ : اگروہ پانی سے چلو نہ بھرتی توزمزم کا چشمہ ساری زمین پرجاری ہوجاتا اورپھیل جاتا ۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ : اسے فرشتہ کہنے لگا : تم ضائع ہونے سے نہ ڈرو اورخوف نہ رکھو ، کیونکہ یہ بچہ اوراس کا باپ بیت اللہ تعمیر کرے گا ، اوریقینا اللہ تعالی اس کے اہل وعیال کوضائع نہيں کرے گا ۔۔۔ الحدیث دیکھیں : صحیح بخاریغ ( 6 / 396 - 397 ) حدیث نمبر ( 3364 ) ۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب مثیرالعزام الساکن میں کہتے ہيں :
اس حدیث سے یہ بیان ہوتا ہے کہ اس کا نام زمزم کیوں رکھا گيا ، کیونکہ جب پانی بہہ نکلا توھاجرنے اسے روک دیا تھا ، ابن فارس لغوی کہتے ہيں : زمزم یہ ہےکہ آپ کہیں زممت الناقۃ ، یعنی جب تواونٹنی کولگام ڈال کراسے روکے ۔ اھـ دیکھیں : مثیر العزام الساکن ( 2 / 47 ) ۔
5 - میدان عرفات میں وقوف کرنا :
ابوداود اورترمذی نے یزيد بن شیبان رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میدان عرفات میں موقف سے دور جگہ پروقوف کررہے تھے توہمارے پاس ابن مربع انصاری رضي اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اورکہنے لگے میں اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہاری طرف پیغام دے کربھیجا گيا ہوں انہوں نے آپ سے فرمایا ہے کہ :
تم اپنی جگہوں پرہی رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی وراثت کی وراثت پرہو ۔
سنن ابوداود ، سنن ترمذی حدیث نمبر ( 883 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ابوداود ( 1688 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
بہت سارے اعمال حج ابراہیم علیہ السلام کے دور میں پائے جاتے تھے لیکن مشرکوں نے اس میں بعض امورایسے پیدا کرلیے جومشروع نہيں تھے ، لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے توانہوں نے اس میں مشرکوں کی مخالفت کی اورمشروع اعمال حج بیان کیے ۔
تاريخ حج اوراس کےکچھ اعمال کے بارہ میں یہ مختصر سا نوٹ تھا ، آپ اس میں مزيد تفصیل جاننے کے لیے حافظ ابن جوزي رحمہ اللہ تعالی کی کتاب مثیرالعزام الساکن الی اشرف الاماکن کی مکمل پہلی جلد اوردسروی جلد کا ابتدائي حصہ مطالعہ کریں ۔
اورمسجد حرام کی تاریخ کے بارہ میں تفصیل دیکھنے کے لیے ہم سائل سے گزارش کریں گے کہ وہ سوال نمبر ( 3748 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کرے
واللہ اعلم .