"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
غیر شرعی تہواروں مثلاً: سالگرہ وغیرہ پر ماضی میں قبول کیے گئے تحائف کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح میری سہیلی کو ان کے والد نے اس کی سال گرہ کے موقع پر گاڑی تحفے میں دی تھی، تو اس پر سوار ہونے کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ.
اول:
سالگرہ منانا شرعی طور پر جائز نہیں ہے ، اسی طرح اس سے ہٹ کر دیگر خود ساختہ تہوار منانا بھی جائز نہیں ہیں چاہے وہ دینی تہوار ہوں یا دنیاوی؛ کیونکہ ان میں بدعت بھی پائی جاتی ہے اور کفار سے مشابہت بھی ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26804 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
بنیادی طور پر اصول تو یہی ہے کہ انسان کو جو بھی تحائف سالگرہ کی مناسبت سے دئیے جائیں تو انہیں قبول نہ کرے؛ کیونکہ ایسے تحائف کو قبول کرنے سے ایسے تہواروں کو تسلیم کرنا بھی ہے اور انہیں مناتے ہوئے تسلسل قائم رکھنے میں تعاون بھی ہے۔ لیکن اگر تحفہ دینے والا اصرار کرے اور خدشہ ہو کہ اگر تحفہ قبول نہ کیا گیا تو خرابی پیدا ہو گی، تو وہ اس کا تحفہ ضرور قبول کرے، اور واضح کر دے کہ میں نے یہ تحفہ غیر شرعی تہوار کی وجہ سے قبول نہیں کیا بلکہ قرابت داری اور باہمی محبت کی وجہ سے قبول کیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (146449 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
سوم:
ایسے تہواروں میں دئیے گئے تحائف کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جنہیں ایسے وقت میں قبول کیا گیا جب کوئی غیر شرعی تہوار منانے کو جائز سمجھتا تھا، یا اس میں تحائف دینے کو درست جانتا تھا، یا اسے اس حوالے کچھ بھی پتہ ہی نہیں تھا وہ اس کے شرعی حکم سے جاہل تھا، یا اسے علم تو تھا لیکن جیسے کہ پہلے ہم نے ذکر کیا کہ بڑی خرابی سے بچنے کے لیے غیر شرعی تہوار پر تحفہ قبول کیا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس طرح اسلام قبول کرنے سے سابقہ تمام گناہ کالعدم ہو جاتے ہیں، تو توبہ بھی سابقہ تمام گناہوں کو کالعدم کر دیتی ہے، خصوصاً ایسے شخص کی توبہ جس نے کوئی گناہ عذر کی حالت میں کیا تھا کہ اسے بعد میں کسی قرآنی یا نبوی حکم کا علم ہوا، یا بعد میں اسے سمجھ آئی کہ پہلے اسے علم نہیں تھا، یا سمجھ نہیں تھی۔ تو یہ بات بالکل واضح ہے، اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کسی نے کوئی لین دین کیا، یا ایسی چیز کو اپنی ملکیت میں لیا جس کی حرمت کا اسے علم نہیں تھا، چاہے جہالت کی وجہ سے علم نہیں تھا یا وہ شرعی نص کے معنی کی تاویل کرتا تھا۔ تو دو میں سے ایک موقف کے مطابق اس کا حکم بھی یہی ہے، بلکہ بالاولی یہی حکم ہے۔
لہذا اگر اس نے کوئی ایسا حرام کام کیا جس میں تاویل کرتے ہوئے وہ اسے جائز سمجھتا رہا مثلاً: سودی لین دین، یا جوا ، یا شراب کی قیمت ، یا نکاحِ فاسد وغیرہ یا اس طرح کا کوئی بھی کام ہو، پھر بعد میں اسے حق بات کا علم ہوا اور وہ توبہ تائب ہو گیا، یا ہمارے پاس فیصلے کے لیے آیا، یا ہم سے فتوی طلب کیا تو پھر وہ مذکورہ عقود میں جو کچھ بھی اپنے قبضے میں لے چکا ہے وہ اسی کے قبضے میں رہے گا۔
اسی طرح اس کے اس نکاح کو بھی باقی رکھا جائے گا جو کہ فاسد تھا، مثلاً: بغیر ولی کے یا گواہوں کی عدم موجودگی میں نکاح کر لیا اور اسے صحیح سمجھتا رہا، یا چوتھی بیوی کی عدت کے دوران پانچویں بیوی سے نکاح کر لیا، یا اختلافی نکاحِ حلالہ کر لیا یا کوئی اور فاسد نکاح کیا۔ اور بعد میں اسے نکاح کے فاسد ہونے کا علم ہوا تو اس کے اس نکاح کو برقرار رکھا جائے گا۔۔۔۔
یہاں مقصود یہ ہے کہ: اگر ایسے شخص کو قطعی نص کی رو سے حرام ہونے کا یقین ہو جائے جیسے کافر شخص کو اسلام کے صحیح دین ہونے کا یقین ہو جائے تو پھر ہم اس کافر شخص کے سابقہ نکاحوں کو برقرار رکھیں گے، اور اسی طرح فاسد عقود کی بدولت قبضے میں لیے ہوئے مال کو بھی بشرطیکہ عقد کے فاسد ہونے کا سبب بننے والا ذریعہ قائم نہ ہو ۔۔۔
اس مسئلے میں امام احمد اور دیگر فقہا کے موقف میں اختلاف ہے۔
دیگر فقہائے کرام کا نکتہ نظر یہ ہے کہ: یہ کام شریعت میں منع ہیں، اور ممانعت کی وجہ سے وہ کام فاسد ہو جائے گا، انہوں نے تمام مسلمان کو یکساں ایک ہی جیسا رکھا ہے، انہوں نے تاویل کرنے والے اور دیگر لوگوں میں کوئی تفریق نہیں کی۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى"(22/12)
ایک اور مقام (29/ 412)پر کہتے ہیں:
"یہ معاملہ ہر ایسے عقد کے ساتھ ہو گا جسے کوئی مسلمان کسی تاویل کی بنا پر ذاتی اجتہاد یا کسی کی تقلید کی وجہ سے جائز سمجھتا رہا: مثلاً: ایسے سودی معاملات جنہیں حیلوں کے ذریعے کچھ لوگ جائز قرار دیتے ہیں۔" ختم شد
اس بنا پر: آپ کی سہیلی مذکورہ گاڑی استعمال کرتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح اگر آپ اس گاڑی میں سوار ہوتی ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم